Walid Se Baat Na Karne Ki Qasam Khakar Tod Di Tu Hukum

 

والد سے بات نہ کرنے کی قسم کھاکر توڑ دی تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3402

تاریخ اجراء: 25جمادی الاخریٰ 1446ھ/28دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی نے یوں قسم کھائی تھی:" قرآن کی قسم ہے اب بات نہیں کروں گی پاپا سے" لیکن پھر توبہ کے نفل پڑھ لیے تھے، اللہ سے توبہ کی کہ آئندہ غلطی نہیں ہوگی اور پاپا سے بات کرنے لگی۔ تو کیا  معافی ہوگئی  اللہ کی طرف سے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بعض قسمیں ایسی ہوتی ہیں جن کا توڑنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً گناہ کرنے یا  کوئی فرض یاواجب  ادانہ کرنے کی قسم وغیرہ وغیرہ، یہ ایسی قسمیں ہیں کہ اگرکوئی ان میں سے کوئی قسم کھالے تواس پرلازم ہوتاہے کہ اس قسم کوتوڑدے ، گناہ سے بچے اورجوکام اس پرفرض یاواجب ہے اس کوبجالائے اوراپنی قسم کاکفارہ اداکردے۔

   اور والد سے بات چیت مستقل طورپرختم کردینا،یہ قطع تعلقی ہے اوروالدسے قطع تعلقی ناجائزوحرام ہے ،لہذاجب اس نے والدسے قطع تعلقی کی قسم کھائی تھی تواس پریہی لازم تھاکہ وہ اس سے توبہ کرکے قسم توڑےیعنی والدسے بات چیت وغیرہ کرے،اورقسم کاکفارہ ادا کردے ، پس جب اس  نے توبہ کرکے والدسےبات چیت کرلی تواس نے بالکل درست کیاکہ یہ  شرعی حکم پرعمل ہوا،اوراب اس پرلازم ہے کہ وہ قسم کاکفارہ بھی اداکرے۔

   اورقسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس شرعی فقراء کو صبح و شام دو وقت کا کھانا کھلائیں اور اس میں جن کو صبح کھانا کھلایا ان ہی کو شام میں بھی کھلائیں تب ہی کفارہ ادا ہوگا۔یا دس شرعی فقراء کو درمیانے درجے کے کپڑے دیں۔

   البتہ! کفارے کی ادائیگی میں اس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہیں ، تو کھانے کے بدلے میں ہر شرعی فقیر  کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار برابر رقم دیں۔ واضح رہے کہ ساری رقم ایک ساتھ ایک ہی فقیر کو نہیں دے سکتے بلکہ دس فقیروں کو الگ الگ دینی ہوگی یا ایک شرعی فقیر کو الگ الگ دس دن تک دینی ہوگی۔

    نیز اگر کوئی شخص دس صدقہ فطر کی مقدار رقم دینے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ وہ لگاتار تین دن کے روزے رکھے۔

   بہار شریعت میں ہے:”دوسری وہ کہ اوس کا توڑنا ضروری ہے مثلاً گناہ کرنے یا فرائض وواجبات نہ کرنے کی قسم کھائی جیسے قسم کھائی کہ نماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے کلام نہ کروں گاتو قسم توڑدے۔“ (بہار شریعت،جلد2،صفحہ301،مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

   قسم کے کفارہ کے متعلق اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمْ وَلٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ؕوَاحْفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمْ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡن﴾ترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر  ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا،اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے یاانہیں کپڑے دینایاایک بردہ (غلام)آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے،یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا جب قسم کھاؤ اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو اسی طرح اللّٰہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم احسان مانو۔(پارہ7،سورۃ المائدۃ، آیت89)

   صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ قسم کے کفارے کے متعلق فرماتے ہیں:”قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس 10 مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ ۔۔۔اور جن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا اونھیں کو شام کے وقت بھی کھلائے دوسرے دس 10 مساکین کو کھلانے سے ادانہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دسوں کو ایک ہی دن کھلادے یا ہرروزایک ایک کو یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وقت کھلائے۔۔۔ اور کھلانے میں اباحت و تملیک دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عوض ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو یا ان کی قیمت کا مالک کردے یا دس10روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روز بقدر صدقہ فطر دیدیا کرے۔۔۔اگر غلام آزاد کرنے یا دس  10مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو تو پےدرپے تین روزے رکھے۔(بہار شریعت،جلد2،حصہ 9،صفحہ305،308، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم