
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2271
تاریخ اجراء: 02جمادی الثانی1445 ھ/16دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں بس ایک بار ہی
دس رکعتیں پڑھنی ہوں گی کیونکہ ایک دفعہ شر
ط پائی جانے سے تعلیق ختم ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر تعلیق
ان الفاظ کے ساتھ ہوتی جیسے
جب کبھی یاجب جب یاہربار
میں یہ کام کروں تودس رکعت نماز پڑھوں گا،توپھر ایک
بارپر تعلیق ختم نہ ہوتی بلکہ ہرباریہ کام کرنے کے بعد دس
رکعتیں پڑھنالازم ہوتیں۔
اورتعلیق والی صورت میں چونکہ
یمین(قسم )کامعنی بھی پایاجاتا ہے لہذااس کی
بعض صورتوں میں کفارہ ہوتاہے ۔ اگر ایسی چیزپرمعلق کیا کہ اُس کے
ہونے کی خواہش ہے مثلاً اگر میرالڑکاتندرست ہوجائے تو اتنے روزے رکھوں
گا توایسی صورت میں جب شرط پائی جائے یعنی
بیماراچھاہوگیاتواُتنے روزے رکھناہی ضروری ہیں،اس کے بدلے کفارہ نہیں دے
سکتا۔
اوراگرایسی
شرط پر معلق کیا کہ جس کا ہونا نہیں چاہتاجیسے کسی سے بات
کرنانہیں چاہتا،اسے کہا کہ اگر میں تم سے بات کروں تومجھ پر اتنے روزے
ہیں توایسی صورت میں اگرشرط پائی گئی
یعنی اس سے بات کی تواب اختیارہوگا کہ جتنے روزے کہے تھے
وہ رکھ لے یاقسم کا کفارہ دے۔
پوچھی گئی صورت میں بھی اگر کام
ایساتھا کہ وہ نہیں کرنا چاہتاتھا توپھروہ کام کرنے پر اسے
بھی اختیارہوگاکہ دس
رکعتیں پڑھے یاقسم کا کفارہ دے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم