
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-565
تاریخ اجراء:17ربيع الاخر1446ھ/21اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا فرض غسل اگر سنت کے مطابق کرلیا جائے، تو اس سے نماز ہو جائے گی یا پھر الگ سے وضو کرنا ضروری ہوگا؟ نیز اگر اسی سے نماز پڑھ سکتے ہیں، تو کیا اس سے صرف ایک وقت کی نماز پڑھ سکتے ہیں یا جب تک وضو باقی رہے گا ساری نمازیں پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فرض غسل میں چونکہ تمام بدن پر پانی بہایا جاتا ہے، جس کے ضمن میں اعضائے وضو پر بھی پانی بہہ جاتا ہے اور غسل کے ساتھ وضو بھی ہوجاتا ہے، لہذاغسل کے بعدالگ سے وضو کرناضروری نہیں، ہاں اگر غسل کے بعد وضو توڑنے والی کوئی چیز پائی جائے، توالگ سے وضو کرنا ہوگا، پھر جب تک وضو باقی رہے اُس سے جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتے ہیں، وہ سب کے لیے کافی ہوگا۔
احکام القرآن للجصاص میں ہے: ’’الجنب حين غسل سائر جسده فهو غاسل لهذه الأعضاء فقد قضى عهدة الآية لأنه متوضئ مغتسل فهو إن لم يفرد الوضوء قبل الاغتسال فقد أتى بالغسل على وضوء لأنه أعم منه‘‘ ترجمہ: جنبی شخص جب اپنے تمام جسم پر پانی بہاتا ہے، تو وہ(آیت میں مذکور)اِن اعضائے وضو پر بھی پانی بہاتا ہے، لہذا وہ آیت کے حکم کو پورا کردیتا ہے، کیونکہ وہ وضو کرنے والا غسل کرنے والا کہلاتا ہے، لہذا اگراس نے غسل کرنے سے پہلے الگ سے وضو نہیں کیا، تووہ غسل کے ساتھ وضو کرلے گا ،کیونکہ وہ اس سے (یعنی غسل، وضو) سے عام ہے۔(احکام القرآن للجصاص،جلد3، باب الغسل من الجنابۃ،صفحہ375، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
جامع ترمذی کی حدیث پاک میں ہے: ”عن عائشة، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان لا يتوضأ بعد الغسل“ ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔(جامع ترمذی، جلد1، صفحه179، رقم الحدیث107، مطبوعہ مصر)
علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’أي: اكتفاء بوضوئه الأول في الغسل، وهو سنة، أو باندراج ارتفاع الحدث الأصغر تحت ارتفاع الأكبر؛ بإيصال الماء إلى جميع أعضائه، وهو رخصة‘‘ ترجمہ: یعنی غسل میں پہلے وضو پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے (بعد میں وضو نہیں فرماتے تھے) اور وہ ( یعنی غسل سے پہلے وضو)سنتِ(مستحبہ) ہے، یا معنی یہ ہے کہ تمام اعضائے جسم پر پانی پہنچنے سےحدثِ اکبر کے تحت حدثِ اصغر کے شامل ہونے کی وجہ سے (غسل کے بعد الگ سے وضو نہیں فرماتے تھے)۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 2، باب الغسل، صفحہ430، دار الفكر، بيروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’کیونکہ غسل سے پہلے وضو فرمالیتے تھے،وہ وضو نماز کے لیے کافی ہوتا تھا، بلکہ اگر کوئی شخص بغیر وضو کیے بھی غسل کرے اور پھر نماز پڑھ لے تو جائز ہے، کیونکہ طہارت کبریٰ کے ضمن میں طہارت صغریٰ بھی ہوجاتی ہے اور بڑے حدث کے ساتھ چھوٹا حدث بھی جاتا رہتا ہے۔‘‘(مرآۃ المناجیح،جلد1،صفحہ289،نعیمی کتب خانہ،گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم