غسل کرتے ہوئے ناک میں تین دفعہ سے زیادہ پانی ڈالنے کا حکم

غسل کرتے ہوئے  ناک میں تین دفعہ سے زیادہ پانی ڈالنا کیسا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ناک میں تین دفعہ سے زیادہ پانی ڈالنا کیسا ہے؟ اور غسل ہو گا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

یاد رکھیئے کہ  ناک میں تین مرتبہ پانی چڑھانا، سنت ہے۔ اگر تین دفعہ پانی ڈالنے سے مطلوبِ شرعی حاصل ہو جائے تو پھر بلا ضرورت زیادہ مرتبہ پانی کا استعمال کرناممنوع ہے اور اگر اطمینان نہ ہوا ہو، تو ممانعت بھی نہیں، یونہی اگر میل چھڑانا مقصود ہو تو پھر بھی تین دفعہ سے زیادہ پانی استعمال کرنے کی اجازت ہے، البتہ غسل  دونوں صورتوں میں ہو جائے گا۔

در مختار  میں ہے

”(و الإسراف) و منه الزيادة على الثلاث (فيه) تحريما و لو بماء النهر“

ترجمہ: اور (اسراف یعنی فضول خرچی) میں سے ہے، تین (دفعہ دھونے) سے زیادہ کرنا، یہ (اسراف) مکروہِ تحریمی ہے، اگرچہ وہ نہری پانی سے ہی کیوں نہ ہو۔

اس کےتحت رد المحتار  میں ہے

”من الإسراف الزيادة على الثلاث أي في الغسلات مع اعتقاد أن ذلك هو السنة لما قدمناه من الصحيح أن النهي محمول على ذلك، فإذا لم يعتقد ذلك وقصد الطمأنينة عند الشك، أو قصد الوضوء على الوضوء بعد الفراغ منه فلا كراهة“

ترجمہ: اسراف میں سے تین سے زیادہ بار دھونا بھی شامل ہے، یعنی اعضا کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا جبکہ اس کے ساتھ یہ اعتقاد بھی ہو کہ یہی سنت ہے؛ کیونکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ  اس سے ممانعت اسی (اعتقاد) پر محمول ہے۔ پس اگر ایسا اعتقاد نہ ہو اور شک کی صورت میں اطمینان کی نیت سے یا وضو مکمل ہونے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی نیت سے (زیادہ دھونا) ہو، تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 1، صفحہ 132، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3833

تاریخ اجراء: 18 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 16 مئی 2025 ء