حیض میں قرآنی آیات دم کرنے اور دم شدہ پانی پینے کا حکم؟

حیض کی حالت میں قرآنی آیات دم کرنا اور دم کیا ہوا پانی پینا

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3639

تاریخ اجراء:16 رمضان المبارک 1446 ھ/  17مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا عورت حیض کی حالت میں  قرانی آیت کا دم کیا ہوا  پانی پی سکتی ہے اور قرانی آیت دم کر سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت حیض کی حالت میں قرانی آیت کا دم کیا ہوا پانی تو پی سکتی ہے؛ کیونکہ دم والا پانی پینا ان کاموں میں سے نہیں کہ جو حیض  کی حالت میں کرنا شرعاً ناجائز و ممنوع ہیں۔ البتہ قرآنی آیت کے ذریعے دم وغیرہ نہیں کر سکتی، کہ عورت حیض و نفاس کی حالت میں مطلقاً قرآنِ پاک کی تلاوت نہیں کرسکتی، ہاں! اگر تلاوت ِ قر آن کی نیت نہ ہو، بلکہ حمد وثنا یادعا کے طور پر پڑھنا چاہے تووہ آیات کہ جن میں حمد و ثنا یا دعاکی نیت ممکن ہے انہیں اس نیت سے پڑھ سکتی ہے، پھر اس حمد و ثنا کی برکت سے شفا وغیرہ حاصل ہو، اس نیت سے کسی پر دَم کرنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے۔ البتہ حروفِ مقطعات یا وہ آیات کہ جن میں اللہ عَزَّوَجَلّ نے متکلِّم کے صیغے سے اپنی حمد فرمائی ہے انہیں بعینہٖ اسی صیغہ کے ساتھ پڑھنا یا جن سورتوں کے شروع میں قُلْ ہے،انہیں قُلْ کے ساتھ پڑھنا، حمد وثنا اور دعا کی نیت سے بھی جائز نہیں کہ ان میں یہ نیت ممکن نہیں ہے، لہذاجن سورتوں یاآیات کے شروع لفظ قل ہے، ان سے لفظ قل چھوڑکرآگے سے حمد و ثنا یا دعا کی نیت سے پڑھ سکتی ہے۔

   امام اہلسنت الشاہ ا مام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یہی حکم دم کرنے کے لئے پڑھنے کا ہے کہ طلبِ شفا کی نیت تغییرِ قرآن نہیں کر سکتی، آخر قرآن ہی سے توشفا چاہ رہا ہے، کون کہے گا اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًاتاآخرِ سورت مصروع و مجنون کے کان میں جنب پڑھ سکتا ہے، ہاں جس آیت یا سورت میں خالص معنی دعا و ثنا بصیغۂ غیبت وخطاب ہوں اور اس کے اول میں قُلبھی نہ ہو، نہ اس میں حروفِ مقطعات ہوں اور اس سے قرآنِ عظیم کی نیت بھی نہ کرے بلکہ دعاو ثنا کی برکت سے طلبِ شفا کرنے کے لئے اس پر دم کرے، تو روا ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 1(ب)، صفحہ 1115 ،1116، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے ”لو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء و لم ترد القراءة لا بأس به‘‘ ترجمہ: اگر سورہ فاتحہ کو بطور دعا کے پڑھے یا قرآن کریم کی ان  آیات  کو بطور دعا کے پڑھے کہ  جن میں دعا کا معنی  ہو،اور ان میں قراءت قرآن کا ارادہ نہ کرے تو اس  میں کوئی حرج نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 1، ص 293، دار الفکر، بیروت)

   بہارشریعت میں ہے: ”اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرک کے لیے جیسے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یا خبرِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا بہ نیتِ ثنا پوری سورہ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورہ حشر کی پچھلی تین آیتیں ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَسے آخر سورۃتک پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن کی نیت نہ ہو توکچھ حَرَج نہیں۔ یوہیں تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے نیت کو کچھ دخل نہیں۔" (بہارِ شریعت، ج 1، حصہ 02، ص 326، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم