مچھلی کے برف والے پانی کے لگنے سے کپڑے ناپاک ہوں گے؟

جس برف میں مچھلی رکھی گئی ہو، اس کے پانی کا حکم

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3767

تاریخ اجراء: 29 شوال المکرم 1446 ھ/28 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مچھلی کی دکانوں میں  ریڑھی پر  برف میں مچھلیوں کو رکھا جاتا ہے،  اگر اس ریڑھی پر موجود پانی کپڑوں پر لگ جائے تو کیا حکم ہوگا؟ میں نے سنا ہے کہ مچھلی کا خون ناپاک نہیں کہ وہ در حقیقت  خون ہی نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   جی! یہ بات درست ہے کہ مچھلی میں درحقیقت خون نہیں ہوتا اور اس کاجو سرخ رنگ کا مادہ ہوتا ہے وہ حقیقی خون نہیں ہوتا لہذا مچھلی جس  برف میں رکھی گئی اگر اس برف کاپانی کپڑوں پر لگتا ہے، تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔

   ہدایہ میں ہے

   من حلف لا يأكل لحما فأكل لحم السمك لا يحنث و القياس أن يحنث لأنه يسمى لحما في القرآن. وجه الاستحسان أن التسمية مجازية لأن اللحم منشاه من الدم ولا دم فيه لسكونه في الماء“

   ترجمہ: کسی شخص نے قسم اٹھائی کہ گوشت نہیں کھائے گا، پھر مچھلی کا گوشت کھا لیا، تو وہ حانث نہیں ہو گا، جبکہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حانث ہو جائے، کیونکہ مچھلی کو قرآن حکیم میں گوشت قرار دیا گیا ہے۔ استحساناً حانث نہیں ہو گا اور وجہِ استحسان یہ ہے کہ  گوشت کو مچھلی کہنا مجازاً ہے، کیونکہ گوشت خون سے پیدا ہوتا ہے اور مچھلی میں خون ہوتا ہی نہیں، کیونکہ وہ پانی میں رہتی ہے۔ (ہدایہ، کتاب الایمان، ج 2، ص 485، مطبوعہ لاہور)

   در مختار میں ہے

   دم سمك طاهر“

   ترجمہ: مچھلی کا خون پاک ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے

   ”أولى من قول الكنز إنه معفو عنه؛ لأنه ليس بدم حقيقة بدليل أنه يبيض في الشمس و الدم يسود بها زيلعي“

   ترجمہ: مصنف کا قول، کنز کے قول (مچھلی کا خون معاف ہے) سے بہتر ہے کیونکہ مچھلی کا خون، حقیقتاً خون نہیں ہوتا اس بناء پر کہ وہ سورج کی روشنی میں سفید ہوجاتا ہے جبکہ خون تو سورج کی روشنی سے سیاہ ہوتا ہے، زیلعی۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 1، ص 207 ،208، دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم