
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3698
تاریخ اجراء:23 رمضان المبارک 1446 ھ/24 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
پانی کب مستعمل ہوتاہے؟ نیز اگر کوئی شخص حدث سے پاک ہونے یا قربت کی نیت کے بغیر پانی میں ہاتھ ڈال دے، مثال کےطور پر پانی گرم ہے یا ٹھنڈا ہے، اس کو جاننے کے لیے پانی میں ہاتھ دیا یا غلطی سے ہاتھ پانی میں ڈال دیا تو کیا پانی مستعمل ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قلیل (دہ دردہ سے کم)پانی ، جب بے وضو یابے غسل انسان کے جسم کے اس حصے پر لگ کرجداہوکہ جس کو وضو و غسل میں دھویا جاتا ہے، اس سے بھی پانی مستعمل ہوجائے گا یا ظاہربدن پر پانی کا استعمال خود ثواب کاکام تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اسی ثواب کی نیت سے استعمال کیا تو بھی پانی مستعمل ہوجائے گا۔
(نوٹ: پانی مستعمل ہونے کے لئے پہلی صورت میں انسان کی نیت کا اعتبار نہیں دوسری صورت میں نیت کا اعتبار ہے۔)
لہذا اگر کسی ایسے شخص نے پانی کو چیک کرنے کے لئے پانی میں ہاتھ ڈالا جس پر وضو و غسل لازم نہیں تھا یا وضو یا غسل لازم توتھا لیکن اس قلیل پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھو لیا تو اس سے پانی مستعمل نہیں ہوگا کیونکہ یہاں پر نہ تو قربت(نیکی)کےارادے سے پانی میں ہاتھ ڈالا گیا اور نہ ہی اتنے حصے سے نجاست حکمیہ دورہوئی کیونکہ وہ توپہلے ہی ہاتھ دھونے سے دورہوچکی تھی ۔ اور اگر کسی ایسے شخص نے پانی کو چیک کرنے کے لئے قلیل پانی میں ہاتھ ڈالا جس پر وضو یا غسل لازم تھا، چاہے غلطی سے ہاتھ ڈال دیا اور ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس نے ہاتھ دھو کر اس سے نجاست حکمیہ کو دور نہ کیا ہو تو ایسی صورت میں پانی مستعمل ہوجائے گا، کیونکہ پانی میں ہاتھ ڈالنے کی وجہ سے اتنے حصے سے نجاست حکمیہ دورہوگئی۔
غنیۃ المستملی میں ہے ”(و الماء المستعمل )ھو کل( ما ازیل بہ حدث) اصغر او اکبر( واستعمل فی البدن علی وجہ القربۃ) ھذا حد الماء المستعمل علی قول ابی حنیفۃ و ابی یوسف فانہ عندھما یصیر مستعملا باحد شیئین اما بازالۃ الحدث او باستعمالہ فی البدن علی وجہ القربۃ وبینھما عموم و خصوص من وجہ فیجتمعان فی مثل ما اذا توضا المحدث بالنیۃ و ینفرد الاول فی مثل ما اذا توضا المحدث بلا نیۃ و الثانی فی مثل ما اذا توضا المتوضی بالنیۃ"“ ترجمہ: مائے مستعمل وہ پانی ہے جس سے حدث اصغر یا حدث اکبر زائل کیا گیا ہو یا جسے بدن پر قربت کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔۔ یہ امام ابو حنیفہ و امام ابو یوسف علیہما الرحمہ کے قول پر مستعمل پانی کی تعریف ہے کہ ان کے نزدیک دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز سے مستعمل ہو جائے گا یا حدث زائل کرنے سے یا بدن میں قربت کے طور پر استعمال کرنے سے،اور ان دونوں کے درمیان عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے چنانچہ اس صورت میں دونوں باتیں جمع ہیں جب حدث والا نیت کے ساتھ وضو کرے اور اس صورت میں صرف پہلی بات پائے جائے گی جب حدث والا بغیر نیت وضو کرے اور ایسی صورت میں صرف دوسری بات پائے جائے گی جب باوضو شخص نیت کے ساتھ وضو کرے۔ (غنیۃ المستملی، کتاب الطھارۃ، ص 132، مطبوعہ :کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ میں مائے مستعمل کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”مائے مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر نجاست حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا ،یعنی انسان کے کسی ایسے پارہ جسم کو مس(ٹَچ) کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی، یا ظاہر بدن پر اُس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اُسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا اور یوں اسقاط واجب تطہیر یا اقامت قربت کرکے عضو سے جُدا ہوا اگرچہ ہنوز کسی جگہ مستقر نہ ہوا بلکہ روانی میں ہے"۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد2، صفحہ 43، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اگر کسی ایسے شخص نے پانی کو چیک کرنے کے لئے پانی میں ہاتھ ڈالا جس پر وضو یاغسل لازم نہیں تھا یا وضویاغسل لازم تھا لیکن اس قلیل پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھو لیا تو اس سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔ چنانچہفتاوی رضویہ میں ہے: ”با وضو آدمی نے اعضاء ٹھنڈے کرنے یا میل دھونے کو وضو، بے نیتِ وضو علی الوضو کیا، پانی مستعمل نہ ہوگا کہ اب نہ اسقاطِ واجب ہے نہ اقامتِ قربت۔۔ (اسی طرح) باوضو نے کھانا کھانے کو یا کھانے سے بعد یا ویسے ہی ہاتھ منہ صاف کرنے کو ہاتھ دھوئے کُلّی کی اور ادائے سنّت کی نیت نہ تھی مستعمل نہ ہوگا کہ حدث وقربت نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 2، صفحہ 45 ،46، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہار شریعت میں ہے ”اگر بے وُضو شخص کا ہاتھ یا انگلی یا پَورایا ناخن یا بدن کا کوئی ٹکڑا جو وُضو میں دھویا جاتا ہو بقصد یا بلا قصد دَہ در دَہ سے کم پانی میں بے دھوئے ہوئے پڑ جائے تو وہ پانی وُضو اور غُسل کے لائق نہ رہا۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 2، ص 333، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم