
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر پانی میں بدبودار پانی مکس ہو جائے اور اس کی وجہ سے نہ تو پانی کی رنگت بدلے، نہ ذائقہ بدلے، نہ اس میں بدبو آرہی ہو، تو کیا وہ سارا پانی ناپاک ہوجائے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر وہ بدبودار پانی ناپاک نہیں تھا، تو دوسرے پانی میں مکس ہونے کی وجہ سے اس پانی کوناپاک نہیں کرے گا اور اگر وہ پانی نا پاک تھا، تو دوسرے پانی میں مکس ہونے کی صورت میں اس کی پاکی و ناپاکی کی دوصورتیں ہیں:
(1) اگر وہ پانی دہ در دہ (یعنی کل پیمائش دو سو پچیس اسکوائر فٹ) نہ ہواورجاری بھی نہ ہو، تو اس میں تھوڑا سا ناپاک پانی یا ناپاک چیز پڑجانے سے وہ کل پانی ناپاک ہو جائے گا، اگرچہ اس میں ناپاکی کا کوئی اثر (رنگ، بو، ذائقہ) ظاہر نہ ہوا ہو۔
(2) اور اگر وہ پانی دہ در دہ ہویاجاری ہو اور اس میں ناپاک پانی مکس ہو جائے، تو جب تک اس پانی میں نجاست کا اثر (رنگ، بو یا ذائقہ) ظاہر نہ ہو، پانی نا پاک نہیں ہو گا، اگر نجاست کا اثر ظاہر ہوا، تو اس پانی پہ ناپاکی کا حکم لگے گا۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ان المائع متی اصابتہ نجاسۃ خفیفۃ او غلیظۃ و ان قلت تنجس و لا یعتبر فیہ ربع و لا درھم“
ترجمہ: مائع(بہنے والی) چیز میں جب نجاستِ خفیفہ یا غلیظہ چلی جائے، اگرچہ نجاست کم ہو، تو وہ مائع چیز نجس ہوجائے گی اور اس میں چوتھائی یا درہم کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ (رد المحتار، جلد 1،صفحہ 322، دار الفکر، بیروت)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”نجاستِ خفیفہ اور غلیظہ کے جو الگ الگ حکم بتائے گئے ،یہ اُسی وقت ہیں کہ بدن یا کپڑے میں لگے اوراگر کسی پتلی چیز جیسے پانی یا سرکہ میں گرے توچاہے غلیظہ ہویاخفیفہ، کُل ناپاک ہو جائے گی اگرچہ ایک قطرہ گرے جب تک وہ پتلی چیزحدِ کثرت پر یعنی دَہ در دَہ نہ ہو۔“(بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 390، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فتح القدیرمیں ہے:
”(و الماء الجاري إذا وقعت فيه نجاسة جاز الوضوء منه إذا لم ير لها أثر لأنها لا تستقر مع جريان الماء) و الأثر هو الرائحة أو الطعم أو اللون“
ترجمہ: جب جاری پانی میں نجاست گر جائے، تو اس سے وضو کرنا جائز ہے، جب تک اس کا اثر دکھائی نہ دے، کیونکہ نجاست، پانی کے جاری ہونے کی حالت میں اس میں قرار نہیں پکڑتی۔ اور اثر سے مراد بو یا ذائقہ یا رنگ ہے۔ (فتح القدیر، ج 1، ص 78، دار الفکر، بیروت)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"لا يخفى أن المتأخرين الذين أفتوا بالعشر كصاحب الهداية وقاضي خان وغيرهما من أهل الترجيح هم أعلم بالمذهب"
ترجمہ: مخفی نہیں کہ وہ متاخرین کہ جنہوں نے دہ در دہ کے اوپر (کثیر پانی ہونے کا) فتوی دیا جیسے اہل ترجیح میں سے صاحبِ ہدایہ، قاضی خان وغیرہما، وہ مذہب کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ (رد المحتار، ج 1، ص 192، دار الفكر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3825
تاریخ اجراء: 14 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 12 مئی 2025 ء