
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9263
تاریخ اجراء:11 شعبان المعظم 1446 ھ / 10 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کیا وضو میں چہرہ دھوتے ہوئے، کانوں کی لَو کے بالکل ساتھ والی جگہ، جو کہ قَلَموں کے بال اور لَو کے درمیان ہوتی ہے اور وہاں بال بھی نہیں ہوتے، کیا چہرہ دھوتے ہوئے اُسے دھونا بھی ضروری ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قَلَموں کے بال جو کہ کان کے محاذی اور برابر ہوتے ہیں۔ اِن قلموں اورکان کی لو کی درمیانی جگہ صاف ہوتی ہے، یہاں بال نہیں اُگتے۔ شرعی اعتبار سے وضو میں چہرہ دھوتے ہوئے اِس حصہ کا دھونا بھی فرض ہے۔ یہ جگہ چہرہ کی حد سے خارج نہیں، بلکہ داخل ہے۔
وضو میں اِس جگہ کو دھونے کے متعلق ”تنویر الابصار ودرالمختار“ میں ہے: ”یجب غسل ما بین العذار و الاذن لدخولہ فی الحد، بہ یفتیٰ“ ترجمہ:عِذار اور کان کی درمیانی جگہ کا دھونا ضروری ہے، کیونکہ وہ حصہ بھی چہرے کی حد میں داخل ہے۔ اِسی پر فتویٰ ہے۔(تنویر الابصار و در المختار مع رد المحتار، جلد 01، ارکان الوضو، صفحہ 320، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
”بہ یفتی“ کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1252 ھ/ 1836 ء) لکھتے ہیں: ”هو ظاهر المذهب، و هو الصحيح، و عليه أكثر المشايخ: قال في البدائع: و عن أبي يوسف عدمه، و ظاهره أن مذهبه بخلافه بحر؛ لأن كلمة عن تفيد أنه رواية عنه“ ترجمہ: یہی ظاہرِ مذہب، قولِ صحیح اور اکثر مشائخِ مذہب کا اعتماد کردہ قول ہے۔ علامہ کاسانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”بدائع الصنائع“ میں لکھا: امام ابو یوسف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ”اس حصے“ کا چہرے کی حد میں داخل نہ ہونا ہے، لیکن ظاہر یہی ہے کہ اُن کا مذہب اس کے برخلاف اور طرفین کے موافق ہی ہے، جیسا کہ ”بحر الرائق“ میں ہے، کیونکہ ”عن“ کا کلمہ یہ اشارہ اور فائدہ مہیا کرتا ہے کہ یہ اُن کی ایک روایت ہے۔(مذہبِ مختار نہیں۔) (ردالمحتار مع درمختار، جلد 01، ارکان الوضو، صفحہ 322، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340 ھ/ 1921 ء) لکھتے ہیں: ”داڑھی کا بالائی حصہ جو کانوں کے محاذی ہوتا ہے، جسے عربی میں ”عِذار“ کہتے ہیں، اس حصے اور کان کے بیچ میں جلد کی ایک صاف سطح ہوتی ہے، جس پر بال نہیں نکلتے۔ یہاں اُس سطحِ خالی میں خلاف ہے کہ عِذار والے کے لیے اِس روایت پر اُس کا دھونا ضروری نہیں اور ظاہر الروایۃ ومذہب معتمد میں مطلقا فرض ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 01، صفحہ 267، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
”معجم لغۃ الفقھاء“ میں ہے: ”العِذار: بكسر العين، ج: عذر، موضع الشعر الذي يحاذي الاذن“ ترجمہ: ”عِذار“ عین کی کسرہ کے ساتھ ہے۔ اِس کی جمع ”عُذُر“ ہے۔ بالوں کی وہ جگہ کہ جو کان کے مقابل ہوتی ہے۔(معجم لغۃ الفقھاء، صفحہ 307، مطبوعہ دار النفائس للطباعة و النشر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم