
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2753
تاریخ اجراء:27 شعبان 1446 ھ/ 26 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حلالہ کیا ہے؟ اس کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اور کیا تین طلاق کے بعد دوبارہ اسی شوہر سے نکاح جائز ہونے کے لیےحلالے کا صرف نکاح و تنہائی کافی ہے؟ یا ازدواجی تعلقات قائم ہونا بھی ضروری ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب شوہر و بیوی میں تین طلاقیں ہو جائیں، تو چاہے شوہر نے یہ طلاقیں ایک ساتھ دی ہوں یا الگ الگ دی ہوں اور زبانی دی ہوں یا تحریری دی ہوں، بہر صورت اب وہ عورت اس مرد پر حرام ہو جاتی ہے اور شرعی حلالہ کے علاوہ ان کے لیے رجوع یعنی دوبارہ نکاح کی کوئی دوسری صورت جائز نہیں ہوتی، کیونکہ قرآن وحدیث کے فیصلہ کے مطابق شوہر کو نکاح کے ساتھ یا بلا نکاح رجوع کرنے کا اختیار صرف دو طلاقوں تک حاصل ہوتا ہے۔ اگر تین طلاقیں دے دی جائیں، تو اب عورت اس سابق شوہر کے لیے بغیر حلالۂ شرعیہ ہرگز حلال نہیں رہتی۔ پہلے شوہر کی عدت گزارنے کے بعد وہ آزاد ہے، جس سے چاہے نکاح کے دیگر احکام و شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح عورت کی رضامندی سے ہو گا، اسے مجبور نہیں کر سکتے۔ اب اگر عورت دوسری جگہ نکاح کر لیتی ہے، تو دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی زندگی کا گزارنا میاں بیوی کی باہمی رضا مندی سے ہے، لیکن اس دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے(یعنی نکاحِ صحیح کے بعد ہمبستری، جس میں دخول بھی ضروری ہے، اس) کے بعد اگر اس سے بھی طلاق ہو جائے یا اس دوسرے شوہر کا انتقال ہو جائے، تو طلاق یا وفات کی عدت گزارنے کے بعد یہ عورت اور اس کا سابق شوہر آپس میں پھر سے نکاح کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں، جبکہ انہیں غالب گمان ہو کہ اب دوبارہ شروع ہونے والی ازدواجی زندگی میں اللہ پاک کی حدود قائم رکھ سکیں گے اور ایک دوسرے کے حقوق ٹھیک طور پر ادا کر سکیں گے۔ اس پورے واقعے میں ہر جگہ عورت کی مرضی پر مدار ہے، وہ چاہے تو ساری زندگی کوئی بھی نکاح نہ کرے، اور چاہے تو کسی دوسرے اپنے پسند کے مرد سے نکاح کرکے اسی کے ساتھ زندگی گزارے پھر اگر اس دوسرے شوہر کی موت یا اس سے طلاق ہوجائے تو پھر چاہے تو ہمیشہ بغیر نکاح کے رہے یا کسی تیسرے مرد سے شادی کرکے زندگی گزارے اور چاہے تو اپنی خوشی سے سب سے پہلے شوہر سے نکاح کرلے۔ ہر مرحلے پر عورت کو کلی اختیار ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی تمام فقہائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تین طلاقیں دینے والے شوہر سے دوبارہ نکاح حلال ہونے کے لیے دوسرے شوہر سے صرف نکاح و تنہائی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم ہونا بھی ضروری ہے، تب ہی عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گی۔ اگر اس کے بغیر پہلے شوہر سے نکاح کر لیا، تو یہ نکاح نہیں بلکہ حرام و زنا ہو گا۔ اوپر بیان کردہ طریقے میں شریعت نے جو حکم دیا ہے وہ ایسا ہے کہ شوہر ان اندیشوں کے پیش نظر تین طلاق دینے ہی سے بچے گا اور یہی معاشرتی زندگی کے لئے مفید طریقہ ہے۔
قرآنِ پاک میں تین طلاقیں مکمل ہو جانے سے بیوی کے شوہر پر حرام ہو جانے اور دوبارہ اس کے نکاح میں آنے کی قدرت ہونے کے متعلق ارشاد ہوتا ہے :﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ﴾ ترجمۂ کنز العرفان: ”پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے، پھر وہ دوسرا شوہراگر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر ایک دوسرے کی طرف لَوٹ آنے میں کچھ گناہ نہیں اگر وہ یہ سمجھیں کہ (اب) اللہ کی حدوں کو قائم رکھ لیں گے۔“(پارہ2، سورۃ البقرۃ، الآیۃ 230)
اس آیت میں دوسرے شوہر سے نکاح سے مراد اس کے ساتھ ہمبستری ہونا ہے اور اس کے شرط ہونے پر فقہائے اسلام کا اجماع ہے۔ چنانچہ آیت کے الفاظ ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ﴾ کے تحت امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ”تفسیرِ جلالین“ میں فرماتے ہیں: ”و یطأھا کما فی الحدیث رواہ الشَیخان“ ترجمہ: اور وہ شوہر اس عورت سے ہمبستری کر لے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے، جسے شیخَین (یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما) نے روایت کیا۔(تفسیر الجلالین مع حاشیۃ الصاوی، ج 1، ص 195، مطبوعہ لاھور)
علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ ”حاشیۂ صاوی علی الجلالین“ میں فرماتے ہیں: ”﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا﴾ أی طلقۃ ثالثۃ سواء وقع الاثنتان فی مرۃ أومرتین و المعنی فان ثبت طلاقھاثلاثا فی مرۃ أو مرات﴿فَلاَ تَحِلُّ﴾الخ، کما اذا قال لھا أنت طالق اَوِ البَتَّۃ، و ھذا ھو المجمع علیہ۔۔۔۔۔ قوله: ﴿حَتّٰی تَنْكِحَ﴾ المراد به هنا العقد مع الوطء كما بين ذلك فی الحديث و الاجماع عليه، ملخصا“ ترجمہ :(پھر اگر اسے طلاق دی) یعنی تیسری طلاق، خواہ پہلی دو طلاقیں ایک مرتبہ میں دی تھیں یا دو مرتبہ میں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک بار میں (یعنی اکٹھی دی ہوئی) یا چند بار میں (یعنی الگ الگ دی ہوئی) تین طلاقیں ثابت ہو جائیں، تو (حلالۂ شرعی کے بغیر) عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی، جیسا کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: تجھے تین طلاقیں ہیں یا طلاقِ بَتَّہ ہے، ( تو تینوں ہی واقع ہوں گی) اور اس پر سب کا اجماع (اتفاق) ہے۔ اللہ پاک کا فرمان: (جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے) یہاں اس سے مراد نکاح کے ساتھ ہمبستری ہونا ہے، جیسا کہ یہ حکم حدیث میں بیان فرمایا گیا اور اس پر اجماع ہے۔(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین، ج 1، ص 195، مطبوعہ لاھور)
علامہ مجير الدين بن محمد عليمی مقدسی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت تفسیر ”فتح الرحمٰن فی تفسیر القرآن“ میں فرماتے ہیں: ”﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ﴾ أي: بعدَ الطلقةِ الثالثةِ﴿حَتّٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ غيرَ مطلِّقِها، فيجامعُها. و النكاحُ شرعًا: يتناولُ العَقْدَ و الوَطْءَ جميعًا“ ترجمہ :تیسری طلاق کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گی، یہاں تک کہ اس طلاق دینے والے شوہر کے علاوہ دوسرے مرد سے نکاح کرے، تو وہ اس عورت کے ساتھ ہمبستری کرے اور شرعی طور پر نکاح عقد اور ہمبستری دونوں کو شامل ہوتا ہے۔(فتح الرحمٰن فی تفسیر القرآن، ج 1، ص 326، مطبوعہ دار النوادر)
قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ إسماعيل حقی حنفی تفسیر ”روح البیان“ میں فرماتے ہیں :”الحكمة فی اشتراط إصابة الزوج الثانی فی التحليل و عدم كفاية مجرد العقد فيه الردع عن المسارعة الى الطلاق، فان الغالب ان يستنكر الزوج ان يستفرش زوجته رجل آخر، و هذا الردع انما يحصل بتوقف الحل على الدخول، و اما مجرد العقد فليس منه زيادة نفرة و تهييج غَيرة، فلا يصلح توقف الحل عليه رادعا و زاجرا عن التسرع الى الطلاق“ ترجمہ : حلالہ میں دوسرے شوہر کے ہمبستری کرنے اور نکاح کا صرف عقد کافی نہ ہونے کی شرط میں حکمت شوہروں کو طلاق دینے میں جلد بازی سے روکنا ہے، کیونکہ غالب یہ ہے کہ شوہر اس بات سے نفرت کرتا ہے کہ اس کی بیوی کو کوئی دوسرا مرد اپنے بستر پر لٹائے اور یہ (شوہروں کو طلاق دینے سے) روکنا اسی صورت میں حاصل ہو گا کہ جب (تیسری طلاق کے بعد اس شوہر کے لیے) حلال ہونے کو (دوسرے شوہر کے ساتھ) ہمبستری پر موقوف کیا جائے، کیونکہ نکاح کے صرف عقد سے نفرت میں زیادتی اور غیرت کو جوش نہیں آتا، تو دوبارہ حلال ہونے کو صرف نکاح پر موقوف کرنا کافی نہیں، تاکہ شوہروں کو طلاق کی طرف جلد بازی سے سختی کے ساتھ روکا جائے۔(تفسیر روح البیان، ج 1، ص359، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)
صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ”خزائن العرفان“ میں فر ماتے ہیں: ”تینوں طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر بحرمتِ مغلظہ حرام ہو جاتی ہے، نہ اس سے رجوع ہو سکتا ہے، نہ دوبارہ نکاح، جب تک کہ حلالہ نہ ہو یعنی بعدِ عدت دوسرے سے نکاح کرے اور وہ بعدِ صحبت طلاق دے، پھر عدّت گزارے، پھر پہلے شوہر سے نکاح کرے۔“(تفسیر خزائن العرفان، پارہ 2، سورۃ البقرۃ، الآیۃ 230)
دوسرا شوہر اگر ہمبستری کیے بغیر طلاق دے دے، تو عورت پہلے شوہر پر حلال نہیں ہوتی۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث پاک میں ہے: ”عن عائشۃ ان رجلاً طلّق امراتہ ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبی صلی اللہ علیہ و سلم اتحل للاول؟ قال: لا، حتی یذوق عسیلتھا کما ذاق الاول“ ترجمہ: حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، پس اس عورت نے دوسری شادی کی، تو اس دوسرے شوہر نے (ہمبستری سے پہلے ) طلاق دے دی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے پوچھا گیا: کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گئی ہے؟ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے (یعنی ہمبستری کر لے)، جیسے پہلے شوہر نے چکھی۔(صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، ج 7، ص43، حدیث 5261، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، مصر)
تنویر الابصار ودرمختار میں ہے: ”(لا) ینکح (مطلّقۃ بھا) ای بالثلاث (حتی یطاھا غیرہ و لو) الغیر (مراھقاً بنکاح) نافذ (وتمضی عدتہ) ای الثانی، ملخصا“ ترجمہ: ”تین طلاق والی عورت سے شوہر نکاح نہیں کر سکتا ، جب تک کوئی اور اس سے نکاحِ صحیح کے ساتھ ہمبستری نہ کر لے، اگرچہ وہ مراہق ہو اور اس یعنی دوسرے نکاح کی عدت نہ گزر جائے۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج 5، ص 43۔ 46، مطبوعہ کوئٹہ)
امامِ اہلِسنت سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ حلالے کی مکمل تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :”شریعت کا حکم یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں، ایک دفعہ میں، خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اور رجعت کر لی، پھر دوسری دی اور رجعت کر لی، اب تیسری دی، دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیر حلالہ حرام ہے۔ حلالہ کے معنی یہ ہیں کہ اس طلاق کے بعد عورت اگر حیض والی ہے، تو اسے تین حیض شروع ہو کر ختم ہو جائیں اور اگر حیض والی نہیں، مثلا نو برس سے کم عمر کی لڑکی ہے یا پچپن برس سے زائد عمر کی عورت ہے اور اس طلاق کے بعد تین مہینے کامل گزر جائیں یا اگر حاملہ ہے، تو بچہ پیدا ہو لے، اس وقت اس طلاق کی عدت سے نکلے گی۔ اس کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بروجہِ صحیح کرے یعنی وہ شوہرِ ثانی اس کا کفو ہو کہ مذہب، نسب، چال چلن، پیشہ کسی میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیاء کے لیے باعثِ بدنامی ہو یا اگر ایسا کم ہے، تو عورت کا ولی نکاح ہونے سے پہلے اس کو یہ جان کر کہ یہ کفو نہیں ہے، اس کے ساتھ نکاح کی بالتصریح اجازت دے دے یا یہ ہو کہ عورت بالغہ کا کوئی ولی ہی نہ ہو، تو عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کر لے اور ولی نے اسے غیرِ کفو جان کر نکاح سے پہلے صریح اجازت نہ دی، تو نکاح ہی نہ ہو گا۔ یونہی لڑکی اگر نابالغہ ہے اور اس کے نہ باپ ہے، نہ دادا، بھائی، چچا وغیرہ ولی ہیں، لوگوں نے کسی غیرِ کفو سے اس کا نکاح کر دیا، جب بھی نکاح نہ ہو گا۔ غرض جب شوہرِ ثانی سے نکاح صحیح طور پر واقع ہو اور وہ اس سے ہمبستری بھی کر لے اور اس کے بعد وہ طلاق دے اور اس طلاق کی عدت اِسی طرح گزرے کہ تین حیض ہوں اور حیض نہ آتا ہو، تو تین مہینے اور حمل رہ جائے، تو بچہ پیدا ہونے کے بعد، اس کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کر سکتا ہے، ان میں سے ایک بات بھی کم ہو گی، تو وہ نکاح نہ ہو گا، زنا ہو گا۔“(فتاوی رضویہ، ج 12، ص 407، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم