Mehar ki Adaigi se Pehle Talaq Hojaye to Kitna Mehar Milega?

مہر کی ادائیگی سے پہلے عورت کو طلاق ہوجائے، کتنا مہر ملے گا؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-631

تاریخ اجراء:03رجب المرجب1446ھ/04 جنوری5 202ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر مہر ادا کرنے سے پہلے عورت کو طلاق ہوگئی، تو کیا عورت  اپنا  مہر لے گی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا مہر تو محض عقد نکاح سے ہی واجب ہوجاتا ہے،البتہ  طلاق ہونے کی صورت میں کب عورت  پورا مہر  لے گی  اور کب آدھا مہر لے گی؟اس میں کچھ تفصیل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے :

   (۱)اگر عورت کا   مہر مقرر تھا اور میاں بیوی کے درمیان  ہمبستری یا خلوت صحیحہ ہوجانے کے بعد عورت کو طلاق ہوئی،تو عورت کو  پورا مقرر شدہ مہر    ملے گا۔

   (۲)اگرمہرمقرر تھا اور  میاں بیوی کے درمیان ہمبستری  یا خلوت صحیحہ ہوجانے سے   پہلےہی  عورت کو طلاق ہوگئی،تو عورت کوآدھا مہر ملے گا، ہاں شوہر زیادہ دینا چاہے، تو اس کی مرضی ہے۔

   (۳) اگرعورت کا مہر مقرر نہ ہوا تھا، تو اگر میاں بیوی کے درمیان   ہمبستری یا خلوت صحیحہ ہوجانے کے بعد طلاق ہوئی،تو  عورت کو مہر مثل ملے گا۔مہر ِمثل سے مراد عورت کے والد کی طرف سےخاندان کی اُس جیسی عورتوں کا جو مہر مقرر ہواہو ،جیسے عورت   کی بہن، پھوپھی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔ اور اگراس صورت میں  میاں بیوی کے درمیان   ہمبستری یا خلوت صحیحہ ہوجانے سے   پہلےہی  عورت کو طلاق ہوگئی ہو، تو عورت کو   مخصوص سامانا دیا جائے گا(یعنی ایک عدد سوٹ پیس، جس میں قمیص ،شلوار  اور دوپٹہ  شامل ہوگا)یااُس کی قیمت  دی جائے گی۔

   خلوتِ صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی ایک مکان میں اس طرح جمع ہوں کہ اگر وہ  میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنا چاہیں، تو ہمبستری میں  حسی، شرعی  اور طبعی   رکاوٹوں میں سے کوئی  رکاوٹ نہ پائی جائے، ایسی خلوت ہمبستری کے حکم میں ہے۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع، وإن تزوجها ولم يسم لها مهرا أو تزوجها على أن لا مهر لها فلها مهر مثلها إن دخل بها أو مات عنها، وكذا إذا ماتت هي فإن طلقها قبل الدخول والخلوة فلها المتعة‘‘ ترجمہ:اور مہر تو وہ تین چیزوں سے مؤکد(پختہ)ہوجاتا ہے،دخول (ہمبستری)،خلوت صحیحہ،اور میاں بیوی میں سے کسی ایک کی موت،چاہے مہر  مسمیٰ ہو یا مہر مثل،یہاں تک کہ اس کے بعد مہر کو کوئی چیز ساقط نہیں کرسکتی،سوائے صاحب حق کے خود دستبردار ہوجانے کے،یونہی بدائع الصنائع میں ہے۔اور اگر نکاح کیا اور مہر مقرر نہ کیا،یا اس شرط پر نکاح کیا کہ اس کے لیے  مہر نہیں،  تو عورت کے لے  مہر مثل ہوگا جبکہ ہمبستری ہوجائے یا شوہر وفات پاجائے،اسی طرح جب عورت وفات پاجائے،اور اگر ہمبستری یا خلوت سے پہلے طلاق دیدی تو عورت کے لیے ہوگا۔(الفتاوی الھندیہ، جلد1، صفحہ 304-305،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ خلوتِ صحیحہ وجوبِ مہر کی شرط نہیں، وجوبِ مہر تو عقدِ نکاح سے ہوتا ہے، ہاں خلوت سے مہر متاکد(پختہ) ہوجاتا ہے بایں معنی کہ اگر پیش ازوطی وخلوتِ صحیحہ طلاق  دیتاتو نصف مہر لازم آتا، اب کہ خلوت واقع ہوگئی کُل لازم آئے گا۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد 12، صفحہ 143، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”وطی یا خلوت صحیحہ یا دونوں میں سے کسی کی موت ہو ان سب سے مہر مؤکد ہو جاتا ہے کہ جو مہر ہے اب اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔۔۔ اگر مہر مؤکد نہ ہوا تھا اور شوہر نے طلاق دے دی تو نصف واجب ہوگا۔“(بھارِ شریعت، جلد2،حصہ7، صفحہ 65، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہار شریعت میں ہے:’’نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا، یا مہر کی نفی کر دی کہ بلا مہر نکاح کیا  تو نکاح ہو جائے گا اور اگر خلوتِ صحیحہ ہوگئی یادونوں سے کوئی مر گیا تو مہر مثل واجب ہے بشرطیکہ بعد عقد آپس میں کوئی مہر طے نہ پا گیا ہو اور اگر طے ہو چکا تو وہی طے شدہ ہے۔ يوہيں اگر قاضی نے مقرر کر دیا تو جو مقرر کر دیا وہ ہے اور ان دونوں صورتوں میں مہر جس چیز سے مؤکد ہوتا ہے، مؤکد ہو جائے گا اور مؤکد نہ ہوا بلکہ خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق ہوگئی ،تو ان دونوں صورتوں میں بھی ایک جوڑا کپڑا واجب ہے یعنی کرتہ، پاجامہ، دوپٹا جس کی قیمت نصف مہر مثل سے زیادہ نہ ہو اور زیادہ ہو تو مہر مثل کا نصف دیا جائے۔۔۔ جوڑے کی جگہ اگر قیمت دیدے ،تو یہ بھی ہوسکتا ہے اور عورت قبول کرنے پر مجبور کی جائے گی۔“(بھارِ شریعت، جلد2،حصہ7، صفحہ66-67، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہی  ہے :”خلوتِ صحیحہ یہ ہے کہ زوج زوجہ ایک مکان میں جمع ہوں اور کوئی چیز مانع جماع نہ ہو، یہ خلوت جماع ہی کے حکم میں ہے اور موانع تین ہیں: (1)حسّی(2) شرعی (3) طبعی۔‘‘(بھارِ شریعت، جلد2،حصہ7، صفحہ 68،کتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم