اولاد نہ ہونے پر بیوی کا طلاق مانگنا کیسا؟

شوہر میں میڈیکل ایشو کی وجہ سے اولاد نہ ہو تو بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک خاتون اپنے منسوب کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، وجہ یہ ہے کہ شادی کو کئی سال ہو گئے، اولاد نہیں ہے۔ معلومات کیں تو منسوب کے ساتھ میڈیکل ایشوز ہیں۔ اب وہ خاتون اپنے منسوب سے علیحدگی چاہتی ہیں اور میکے بیٹھ گئی ہیں۔ اس بارے میں شرعی حکم بیان فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر شوہر حقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر ہے اور اس کے علاوہ بھی اس کے تمام حقوق شرع کے مطابق پورے کرتا ہے، تو شوہر میں محض کسی میڈیکل پرابلم کے سبب اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اس سے طلاق مانگنا، جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ طلاق مانگنے کے شرعی اعذار و مجبوریوں میں سے نہیں ہے۔ نیز اس کے علاوہ کسی دوسرے سے نکاح کرے گی تودوسرےشوہر سے بھی اولاد ملنا یقینی نہیں ہے، کیونکہ اولاد ملنا یا نہ ملنا بندے کے اختیار میں نہیں، بلکہ یہ اللہ پاک کی عطا سے ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہیں کر سکتی، مطالبہ کرے گی، تو گناہ گار ہو گی، کیونکہ عورت یا اس کے گھر والوں کا شرعی عذر و مجبوری کے بغیر طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا، ناجائز و حرام ہے۔ حُضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم نے شرعی عذر و مجبوری کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گی اور ایک حدیث پاک میں بلا عذر خلع کا مطالبہ کرنے والی کو منافقہ فرمایا۔ یونہی عورت کو بلا وجہِ شرعی طلاق یا خلع کے مطالبے پر ابھارنے والا بھی سخت گناہ گار ہوتا ہے۔

اس خاتون کو حوصلہ رکھنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ پاک اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق جسے چاہے اولاد دیتا ہے اور جسے چاہے اولاد سے محروم رکھتا ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر و بیوی دونوں صحت مند ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی اولاد نہیں ہوتی۔ اللہ کریم نے حضرت زکریا علی نبیناوعلیہ الصلوۃ و السلام کو بڑھاپے میں بانجھ بیوی سے اولاد کی نعمت سے نوازا تھا، جیسا کہ اس کا تفصیلی واقعہ قرآن پاک، پارہ 16، سورت مریم کے شروع میں مذکور ہے۔ لہٰذا اولاد کے معاملہ میں اللہ کریم کی تقسیم پر راضی رہنا اور اُسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ نیز اولاد کے حصول کے لیے جائز تدابیر (علاج ووظائف وغیرہ) اختیار کر کے سچے دل سے دعائیں بھی کریں۔

شوہر اولاد کے قابل نہ ہو، لیکن وہ بیوی کا حقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر ہو، تو بیوی اس سے طلاق نہیں مانگ سکتی۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے

لو لم یکن لہ ماء و یجامع فلا ینزل، لا یکون لھا حق الخصومۃ، کذا فی النھایۃ

ترجمہ: اگر شوہر کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیوی سے صحبت کے وقت شوہر کا پانی نہ اترتا ہو، تو بیوی کو جدائی کامطالبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ اسی طرح نہایہ میں ہے۔ (الفتاوی العالمگیری، جلد 1، صفحہ 525، مطبوعہ: بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے ”شوہر جماع کرتا ہے مگر منی نہیں ہے کہ انزال ہو تو عورت کو دعوے کا حق نہیں۔ (بہارِ شریعت، جلد 2، حصہ 8، صفحہ 232، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اولاد دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے

﴿لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ- یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ- یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49) اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ- وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ- اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)﴾

ترجمۂ کنز الایمان: اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ، پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے، بےشک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (پارہ 25، سورۃ الشوریٰ، آیت: 49، 50)

"جسے چاہے بانجھ کر دے" کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے” کہ اس کے اولاد ہی نہ ہو۔ وہ مالک ہے، اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے، جسے جو چاہے دے۔ انبیاء علیہم السلام میں بھی یہ سب صورتیں پائی جاتی ہیں، حضرت لوط و حضرت شعیب علیہما السلام کے صرف بیٹیاں تھیں،کوئی بیٹا نہ تھا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صرف فرزند تھے، کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور سیدِ انبیاء حبیبِ خدا محمّد مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالٰی نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحب زادیاں اور حضرت یحیٰی اور حضرت عیسٰی علیہما السلام کے کوئی اولاد ہی نہیں۔“ (خزائن العرفان، صفحہ 898، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

شرعی عذر و مجبوری کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال : اَیُّما اِمرأۃ سألتْ زوجَھا طلاقا من غیر باس فحرامٌ علیھا رائحۃُ الجنۃ

 ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اپنے شوہرسے کسی معقول عذر کے بغیر طلاق مانگے، اُس پرجنت کی خوشبوحرام ہے۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی المختلعات، جلد 3، صفحہ485، حدیث: 1187، مطبوعہ: مصر)

بلا عذر خلع کا مطالبہ کرنے والی منافقہ ہے۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت ہے

عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم انہ قال المختلعات ھن المنافقات

یعنی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اپنے شوہر سے (بغیرعذر) خلع مانگنے والیاں منافقہ ہیں۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی المختلعات، جلد 3، صفحہ 484، حدیث: 1186، مطبوعہ: مصر)

عورت کو بلا وجہِ شرعی طلاق کے مطالبے پر ابھارنے والا بھی سخت گناہ گار ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: لیس مِنا مَن خبّب امراۃً علی زوجھا

یعنی: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: کسی عورت کو اس کے شوہرکے خلاف بھڑکانے والا ہم میں سے نہیں۔ (سنن ابی داود، جلد 3، صفحہ 503، حدیث: 2175، دار الرسالۃ العالمیۃ)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی رحمۃاللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”عورت کا طلاق طلب کرنا ، اگر بغیر ضرورتِ شرعیہ ہو، تو حرام ہے۔۔۔ اور جب شوہرحقوقِ زوجیت تمام وکمال ادا کرتا ہے، تو جو لوگ طلاق پرمجبور کرتے ہیں،وہ گنہ گار ہیں۔ ( فتاوی امجدیہ، جلد 2، صفحہ 164، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4344

تاریخ اجراء: 24 ربیع الآخر 1447ھ / 18 اکتوبر 2025ء