طلاق دینے پر مال کی شرط لگانا کیسا؟

طلاق دینے پر مال کی شرط لگانا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

جب نکاح کے وقت نکاح کے ساتھ کچھ رقم یا مال یعنی سونا چاندی وغیرہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ جب لڑکا لڑکی کو طلاق دے گا تو وہ طے شدہ رقم یا مال بھی ساتھ دے گا، اب لڑکے نے لڑکی کو طلاق دے دی لیکن وہ طےشدہ رقم یا مال جو کہ شرط کے طور پر لکھا گیا تھا وہ نہیں دے رہا، تو اب طلاق صرف کہنے سے ہو گی یا طلاق کے لیے وہ مال دینا ضروری ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بغیر حاجت بلاعذرشرعی طلاق دینامکروہ وممنوع ہے مگرشرع کی طرف سے شوہرطلاق دینے میں مستقل بااختیار ہے اگروہ طلاق دے دے گا تو طلاق واقع ہوجائے گی، خواہ طلاق دینے پرمال کی شرط رکھی ہویانہ رکھی ہو، اور شوہر نے مال دیا ہو یا نہ دیا ہو، بلکہ طلاق دینے پرمال کی شرط لگاناکہ طلاق دی تو اتنی رقم دینی ہوگی، یہ شرط ہی شرط فاسد اور شریعت کے خلاف ہے، ایسی شرط لگانے کی شرعااجازت نہیں ہے کیونکہ طلاق دینے پر مال دینے کی شرط لگانا، مالی تعزیرہے اورمالی تعزیرمنسوخ ہے، اور شرط فاسد اگر نکاح میں لگائی جائے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نکاح درست ہوجاتا ہے اور شرط باطل ہوجاتی ہے، لہذا یہ شرط باطل ہے اور صورت مسئولہ میں جب شوہر نے طلاق دے دی ہے تو طلاق واقع ہوگئی اور طلاق دینے کی صورت میں، طلاق کی وجہ سے کسی قسم کا مال لازم نہیں ہوا۔

بحرالرائق میں ہے

و في شرح الآثار  التعزير بالمال كان في ابتداء الاسلام ثم نسخ . و الحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال

ترجمہ: شرح الآثار میں ہے کہ مالی جرمانہ ابتداءِ اسلام میں جائز تھا، پھر منسوخ ہو گیا۔ حاصل یہ ہے کہ مذہبِ حنفی میں مالی جرمانہ لینے کی اجازت نہیں۔ (بحر الرائق، ج 5، ص 44، دار الكتاب الإسلامي، بیروت)

در مختار میں ہے

(لا يبطل) النكاح (بالشرط الفاسد و) إنما (يبطل الشرط دونه) يعني لو عقد مع شرط فاسد لم يبطل النكاح بل الشرط

ترجمہ: نکاح شرطِ فاسد کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا، ہاں شرطِ فاسد باطل ہو جاتی ہے، یعنی اگر کسی نے شرطِ فاسد کے ساتھ عقدِ نکاح کیا، تو نکاح باطل نہیں ہوگا، شرط باطل قرار پائے گی۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 3، ص 53،دار الفکر، بیروت)

قرآن عظیم میں ہے

﴿الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِؕ-﴾

ترجمہ: جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے(یعنی شوہر)۔ (سورۃ البقرۃ، پ 02، آیت 237)

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے

الزوج ينفرد بالطلاق

ترجمہ: طلاق واقع کرنے میں شوہر مستقل ہے۔ (عنایہ شرح ہدایہ، ج 7، ص 48، دار الفكر، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے "بے حاجت بلا عذر شرعی طلاق دینا مکروہ و ممنوع ہے مگر دے گا تو پڑضرور جائے گی کہ وہ اس کی زبان پر رکھی گئی۔" (فتاوی رضویہ، ج 12، ص 332، رضافاؤنڈیش، لاہور)

بہار شریعت میں ہے” طلاق میں شوہر مستقل ہے۔" (بہار شریعت، ج 2، حصہ 11، ص 790، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4362

تاریخ اجراء: 01 جمادی الاولٰی 1447ھ / 24 اکتوبر 2025ء