
مجیب: مولانا سید مسعود علی
عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1207
تاریخ اجراء: 19جمادی الثانی1445
ھ/02جنوری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں خلوتِ صحیحہ ہوگئی تو پورا مہر لازم ہے اور خلوتِ
صحیحہ یہ ہے کہ میاں بیوی ایک مکان میں
اس طرح جمع ہوں کہ اگر میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنا
چاہیں ، تو کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
بہارِ شریعت میں ہے:”وطی
یا خلوت صحیحہ یا دونوں میں سے کسی کی موت ہو
ان سب سے مہر مؤکد ہو جاتا ہے کہ جو مہر ہے اب اس میں کمی نہیں
ہو سکتی۔ “(بہارِ شریعت، جلد 02، صفحہ 65، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
خلوتِ صحیحہ
کی تعریف بیان کرتے ہوئے مفتی امجد علی اعظمی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:”خلوتِ صحیحہ یہ ہے کہ
زوج زوجہ ایک مکان میں جمع ہوں اور کوئی چیز مانعِ جماع نہ
ہو۔“ (بہارِ
شریعت، جلد 02، صفحہ 68، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم