
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کے ورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ زید نے وراثت میں جو سامان چھوڑا ہے، اس کی مالیت تقریباً 30 سے 40 ہزار کے قریب ہے، جبکہ زید پر ایک ہی شخص کا ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرض تھا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ زید کے ترکے کو اُس کے ورثاء کے مابین تقسیم کیا جائے گا یا پھر اس ترکے سے مرحوم کا قرضہ اتارا جائے گا؟ رہنمائی فرمادیں۔
نوٹ: مرحوم کے کفن دفن کے اخراجات مرحوم کے بیٹے نے اپنے مال سے کیے ہیں، اور بیٹے کی طرف سے اُن اخراجات کا مطالبہ نہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قرآن و حدیث کی روشنی میں میت کے دین یعنی قرض کو وصیت اور وراثت پر مقدم رکھنے کا حکم ہے، بلکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق میت کا ترکہ اگر مکمل ہی دین میں مستغرق ( یعنی گھرا ہوا) ہو، جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں ہے، تو ورثاء کی ملکیت ترکہ میں ثابت نہیں ہوتی ،کیونکہ دینِ مستغرق ورثاء کی ملکیت سے مانع ہوتا ہے،لہذا پوچھی گئی صورت میں زید کے ترکے سے اُس کا قرض ادا کیا جائے گا۔
البتہ بیان کردہ صورت کے مطابق مرحوم کے ترکے میں موجود مکمل سامان قرض خواہ کو دے دینے کے بعد بھی مرحوم کے ذمے پر قرض باقی ہی رہے گا کہ ترکے میں چھوڑے گئے سامان کے مقابلے میں قرض بہت زیادہ ہے، لہذا قرض خواہ اگر بخوشی قرض معاف کردے یا پھر ورثاء میں سے کوئی مرحوم کا یہ قرض ادا کردے ،اگر چہ کہ ورثاء پر اپنے مال سے میت کا یہ قرض اتارنا لازم نہیں، تو یہ بھی میت کی زبردست مدد ہوگی کہ حقوق العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے بھی زیادہ سخت ہے، یہاں تک کہ قرض شہید کو بھی معاف نہیں۔
وہ دین جو ترکے کو مستغرق ہو، ورثاء کی ملکیت سے مانع ہوتا ہے، جیسا کہ مبسوط سرخسی، الاشباہ و النظائر اور تبیین الحقائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:
”و النظم للاول“ أن الدين المحيط بالتركة يمنع ملك الوارث في التركة“
یعنی وہ دین جو ترکے کو محیط ہو، ترکے میں وارث کی ملکیت سے مانع ہوتا ہے۔ (المبسوط، کتاب الماذون الکبیر ، ج 25، ص 148، دار المعرفہ، بيروت)
بنایہ شرح الھدایہ میں ہے:
”(والمستغرق يمنعه) ش: أي الدين المستغرق للتركة يمنع ملك الوارث لأن حقهم بعد وفاء الدين وهو حق الميت فيقدم “
یعنی وہ دین جو ترکے کو گھیرے ہوئے ہووارث کی ملکیت کے مانع ہوتا ہے، کیونکہ ورثاء کا حق دین کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اور دین میت کا حق ہے، لہذا اسے مقدم رکھا جائے گا۔ (البناية شرح الهدايہ، کتاب الماذون، ج 11، ص 160، دار الكتب العلميہ، بیروت)
میت کے دین کو وصیت اور میراث پر مقدم رکھنے کا حکم ہے، جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:
” وعلى هذا الأصل يخرج تقديم الدين على الوصية والميراث؛ لأن الميراث حق وضع في المال الفارغ عن حاجة الميت، فإذا مات وعليه دين مستغرق للتركة والتركة مشغولة بحاجته فلم يوجد شرط جريان الإرث فيه قال اللہ تعالى عز من قائل
﴿ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍۙ ﴾ (النساء: 12)
وقد قدم الدين على الميراث، وسواء كان دين الصحة أو دين المرض؛ لأن الدليل لا يوجب الفصل بينهما وهو ما بينا “
یعنی اسی اصول کی بنا پر اس مسئلے کی تخریج ہے کہ میت کے دین کو وصیت اور میراث پر مقدم رکھا جائے گا، کیونکہ میراث ایک حق ہے کہ جو میت کی حاجت سے فارغ مال میں رکھا گیا ہے، لہذا جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کا ترکہ دین میں مستغرق ہو ،تو اس صورت میں ترکہ اُس میت کی حاجت ہی میں مشغول ہے، اسی وجہ سے یہاں وراثت جاری ہونے والی شرط نہیں پائی جارہی۔ جیسا کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے ’’بعد اس وصیت کے جو کر گیا اور دَین کے‘‘یہاں میراث پر دین کو مقدم رکھا گیا ہے، خواہ وہ دین حالتِ صحت کا ہو یا حالتِ مرض کا، کیونکہ دلیل ان دونوں قسم کے دیون کے مابین فرق بیان نہیں کررہی اور یہی بات ہم نے بیان کی ہے۔ (بدائع الصنائع ، کتاب الاقرار، ج 07، ص 226، دار الكتب العلميہ، بیروت)
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”ورثہ کوبوجہ استغراق دین کوئی استحقاق ملکیت اس ترکہ میں نہیں۔۔۔۔۔
’’و فی الاشباہ والدین المستغرق للترکۃ یمنع ملک الوارث۔“
(فتاوٰی رضویہ، ج 26، ص 124، رضا فاؤنڈیشن، لاھور، ملتقطاً)
ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”زوجہ کانصف مہر جس کا مطالبہ شوہر پرباقی رہا اور ماں کا دَین بابت تجہیزوتکفین جوبشرط مذکورقابل اداثابت ہو (اور اسی طرح اور قرض بھی اگرذمہ مرد ہوں) سب مل کر مقدار کل ترکہ مرد سے (خواہ یہ نصف حصہ زیور ہو جو اسے ترکہ زوجہ سے ملا یا اپنا مال ہو اس مجموع سے) زیادہ ہے یابرابر یاکم اگربرابر یا زائد ہو تو ماں یابھائی کوئی وارث بحیثیت وراثت کچھ نہ پائے گا بلکہ اس حصہ زیور اوردیگر ترکہ مرد سے سب دائنوں کاحق حصہ رسد اداکیاجائے گا اور اگر مجموعہ دیون مجموعہ ترکہ پسر سے کم ہے تو بعد ادائے دیون(وانفاذوصایاپسراگر کی ہوں) جو بچے گا وہ وارثانِ مرد پرمع اس کی ماں کے تقسیم ہوجائے گا۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 26، ص 59، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ورثاء پر اپنے مال سے میت کا قرضہ اتارنا لازم نہیں جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ"فتاوٰی رضویہ" میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” دین عمرو کاذمہ میت عائد رہا تاوقتیکہ اس ترکہ مشترکہ سے ادانہ کردیاجائے تقسیم نہ ہونے پائیگی مگریہ باقی ورثہ دین عمرو کو حصہ رسد اپنے پاس سے اپنے مال خاص سے اداکردیں اگرچہ یہ امر ان پرلازم نہیں کہ مدیون عمرومیت ہے ''نہ ورثہ''۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 26، ص 126، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13736
تاریخ اجراء: 10رمضان المبارک 1446 ھ/11مارچ 2025 ء