
مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3740
تاریخ اجراء:23شوال المکرم 1446ھ/22اپریل2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد محترم کی بہن کا انتقال ہوگیا ہے ، ان کا ترکہ ان کے بچوں کو دینا ضروری ہے یا مسجد وغیرہ ضرورت مندوں کو دے سکتے ہیں ، ان کی کوئی وصیت وغیرہ نہیں تھی ، اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ورثہ کی اجازت کے بغیر ،ان کاحصہ ان کے علاوہ کسی اورکودیناشرعاجائزنہیں ہے ،نہ مسجد وغیرہ میں اورنہ کسی ضرورت مندوغیرہ کو ،البتہ! اگر سب ورثہ بالغ ہوں تو ان میں سے جس کی طرف سے اجازت ہو،اس کی اجازت سے اس کے حصے میں سے اس کے بیان کردہ کسی جائزمقام پرخرچ کیاجاسکتاہے، اورجووارث نابالغ ہواس کی اجازت کا اعتبارنہیں ہے لہذااس کاحصہ کسی اورجگہ خرچ نہیں کر سکتے اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے
﴿ وَ تَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا ﴾
ترجمہ کنزُالعِرفان:’’اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔‘‘(پارہ30 ،سورۃ الفجر،آیت 19)
تفسیرصراط الجنان میں ہے:
’’ ﴿وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا: اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو۔﴾ یہاں کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھاجاتے ہو اور حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے اور عورتوں اور بچوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے، بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو، جاہلیت میں یہی دستور تھا۔اس بیان کردہ ظلم میں بہت سی صورتیں داخل ہیں اور فی زمانہ جو چچا تایا اور قِسم کے لوگ یتیم بھتیجوں کے مال پر قبضہ کرلیتے ہیں یا روٹین میں جو بہنوں ، بیٹیوں یا پوتیوں کو وراثت نہیں دی جاتی وہ بھی اسی میں داخل ہے کہ شدید حرام ہے۔“ (تفسیرصراط الجنان ،جلد10،صفحہ668،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
سراجیہ میں ہے
" قال علمائنا رحمھم اللہ تعالی : تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول: یبدأ بتکفینہ و تجھیزہ من غیر تبذیر و تقتیر، ثم تقضی دیونہ من جمیع ما بقی من مالہ ، ثم تنفذ وصایاہ من ثلث ما بقی بعد الدین،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب و السنۃ و اجماع الامۃ"
یعنی ہمارے علمائے کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے ارشاد فرمایا: میت کے متروکہ مال کے ساتھ بالترتیب چار حقوق متعلق ہوجاتے ہیں: اس کے متروکہ مال میں سے سب سے پہلے ،کمی زیادتی کے بغیر اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا جائے گا،پھر جو مال باقی بچے اس میں سے میت کے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی،قرض کی ادائیگی کے بعد جو بچ جائے، اس میں سے ایک تہائی تک میت کی وصیتوں کو پورا کیا جائے گا ، پھر جو باقی بچے ،اس کو قرآن و سنت ا ور اجماع امت کی روشنی میں میت کے ورثہ کے مابین تقسیم کیا جائے گا۔“( السراجیۃ مع شرح القمریۃ،صفحہ 11،مطبوعہ مکتبہ العلمیہ )
وارثوں کی اجازت سے مال وراثت صرف کیا جاسکتا ہے ، اس کی ایک نظیر بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت علیہ الرحمۃ بیان فرماتےہیں :”غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے ، یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے ، نہ ان سے اس کا اذن لیاجاتا ہے ، جب تو یہ امر سخت حرامِ شدید پر متضمن ہوتا ہے۔۔۔۔ مالِ غیر میں بے اذنِ غیر تصرف خود ناجائز ہے۔۔۔۔خصوصاً نابالغ کا مال ضائع کرنا جس کا اختیار نہ خود اسے ہے ، نہ اس کے باپ ، نہ اس کے وصی کو ۔۔۔۔ ہاں اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں ، توحرج نہیں بلکہ خوب ہے ، بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مالِ خاص سے کرے یا ترکہ سے کریں ، تو سب وارث موجود و بالغ و راضی ہوں ۔“ (فتاویٰ رضویہ ، ج9 ، ص664۔665 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”تیجہ ، دسواں ، چالیسواں ، ششماہی ، برسی کے مصارف میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اپنے مال سے جو چاہے ، خرچ کرے اور میّت کو ثواب پہنچائے اور میّت کے مال سے یہ مصارف اُسی وقت کيے جائیں کہ سب وارث بالغ ہوں اور سب کی اجازت ہو ، ورنہ نہیں ، مگر جو بالغ ہو اپنے حصہ سے کر سکتا ہے ۔ “ (بہارِ شریعت ، ج1 ، حصہ4 ، ص822 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم