
مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3460
تاریخ اجراء: 09رجب المرجب 1446ھ/10جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر شوہر نے مہر ادا نہیں کیا اور بیوی کا انتقال ہو گیا، تو اب شوہر مہر کی ادائیگی کیسے کرے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شوہر نے اگر بیوی کا حق مہر ادا نہیں کیا اور بیوی نے معاف بھی نہیں کیا،اس سے پہلے ہی بیوی کا انتقال ہو گیا، تو وہ بیوی کاترکہ بن گیا،اب اگروہ قابل تقسیم ہو(یعنی عورت پرکوئی ایسادین نہ ہوجواس کے تمام ترکے(نقدی، دین، جائداد) کوگھیرے ہوئے ہو)تواسے ورثاءمیں شریعت کے مقررکردہ حصوں کے مطابق تقسیم کیاجائے گا،اور چونکہ بیوی کے ورثاء میں شوہر بھی ہے، تو شوہر اس میں سے اپنا حصہ رکھ لے اور بقیہ حصہ دیگر ورثاء کے حوالے کر دے ،ان ورثاء میں جومعاف کرنے کااہل ہو(عاقل بالغ صحیح ہو)تووہ اپنی مرضی سے اپناحصہ معاف کرناچاہے تو کرسکتا ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے” مہر جبکہ کل یا بعض ذمہ شوہر واجب الاد ہو اور عورت بے ابرا و معافی معتبر شرعی مر جائے، تو وہ مثل دیگر دیون و اموالِ متروکہ زن ہوتا ہے، اگر شوہر بعد کو زندہ رہے، تو وہ خود بھی اس سے اپناحصہ شرعی حسبِ شرائط مقررہ علم فرائض پاتا ہے، جبکہ عورت کا ترکہ قابلِ تقسیم ورثہ ہو یعنی عورت پر کوئی دین ایسا نہ ہو جو اس کے تمام متروکہ نقد و دین و جائداد کو محیط و مستغرق ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 167، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح کا سوال ہوا، تو جواباً ارشاد فرمایا: ’’جبکہ عورت مر گئی اور مہر معاف نہیں کیا، تو اب یہ عورت کا ترکہ ہے، ۔۔ (ورثاء چاہیں) تو معاف ہو سکتا ہے اور چاہیں تو بقدر اپنے حصے کے وصول کر سکتے ہیں کہ وہ شوہر کے ذمہ دین واجب الادا ہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ، جلد 2، صفحہ 148 ، 149، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم