میّت کے کتنے مال میں وراثت تقسیم ہوگی؟

میّت کتنا مال چھوڑے تو وراثت تقسیم ہوگی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میّت کتنا مال چھوڑے گی تو وراثت تقسیم ہوگی؟ اگر والدہ نے ایک سونے کی چین اور دو تین بالیاں چھوڑی ہوں تو کیا یہ سب اولاد میں تقسیم ہوں گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

وراثت سے پہلے جن امورکی ادائیگی ضروری ہے (جیسے اگرکفن دفن میت کے مال سے ہی کرنا ہو تو اس کی ادائیگی لیکن شوہر موجود ہو اور موت کے وقت کوئی ایسی چیزنہیں پائی گئی کہ بیوی کانفقہ ساقط ہو تو بیوی کے مال سے کفن دفن کاخرچہ نہیں کیاجائے گابلکہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، اور پھر اگر قرض ہے تو پہلے اس کی ادائیگی کی جائے گی اور اس کے بعدمال بچے تو اگر میت نے کوئی وصیت کی تھی تومال کے تہائی حصے سے وصیت پوری کی جائے گی،) ان کی ادائیگی کرنے کے بعدجتنابھی مال بچے، چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ، سونے کی چین ہو یا بالیاں، وہ سب میت کے ورثا میں تقسیم ہوگا۔

السراجیہ میں ہے

قال علماؤنا رحمهم الله تعالى تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة الاول يبدأ بتكفينه و تجهيزه من غير تبذير و لا تقتير تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب و السنة و اجماع الامة 

 یعنی: ہمارے علما، رحمہم اللہ تعالیٰ، نے فرمایا ہے کہ میّت کے ترکے (چھوڑے ہوئے مال) سے چار حقوق وابستہ ہوتے ہیں، جو ترتیب کے ساتھ ادا کیے جائیں گے، سب سے پہلے اس کےکفن دفن کا انتظام کیا جائے، نہ اس میں فضول خرچی ہو اور نہ حد سے زیادہ کمی، پھر اس کے تمام قرضے باقی ماندہ مال سے ادا کیے جائیں گے، پھر جو مال قرض اتارنے کے بعد بچے اس کے ایک تہائی حصے میں سے اس کی وصیت پوری کی جائےپھر باقی بچے ہوئے مال کو اس کے ورثا کے درمیان قرآن، سنت اوراجماع امت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔(السراجیۃ فی المیراث، صفحہ 11-12، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

يجب الكفن على الزوج وإن تركت مالا وعليه الفتوى، هكذا في فتاوى قاضي خان 

ترجمہ: عورت نے اگرچہ مال چھوڑا ہو، اس کا کفن شوہر پر واجب ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے، فتاوی قاضی خان میں بھی ایسا ہی ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، صفحہ 161، مطبوعہ: بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے "عورت نے اگرچہ مال چھوڑا اُس کا کفن شوہر کے ذمہ ہے بشرطیکہ موت کے وقت کوئی ایسی بات نہ پائی گئی جس سے عورت کا نفقہ شوہر پر سے ساقط ہو جاتا۔" (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 820، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4206

تاریخ اجراء: 11ربیع الاول1447ھ/05ستمبر2025ء