
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ تین سال پہلے والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا، اس وقت والدہ نے والد صاحب کی وراثت تقسیم کرنے نہیں دی۔ ایک غیر شادی شدہ بھائی والد کے وراثت کے مال کو استعمال کرتا تھا، اور والد صاحب پر کچھ قرضہ بھی تھا، تو اس قرضے میں سے آدھا قرضہ ادا کیا، اب تین سال بعد وراثت تقسیم کرنے لگے ہیں، تو کیا اس وراثت میں سے والدصاحب کا پورا قرضہ الگ کیا جائے گا، یا جتنا قرضہ رہ گیا ہے صرف وہ الگ کیا جائے گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر بھائی نے والد کا آدھا قرضہ ،والد کے چھوڑے ہوئے مال سے ہی ادا کیا ہو ،تو اب وراثت کی تقسیم کے وقت والد کے ترکے سے صرف بقیہ آدھے قرض کو نکالا جائے گا اور اس کے بعد ورثاء کے درمیان ترکہ کو تقسیم کردیا جائے گا لیکن اگر بھائی نے اپنے والد کا قرضہ، اپنے مال سے ادا کیا ہو، اور تبرعاً (یعنی اپنی طرف سے ) دینے کی صراحت نہ کی ہو، تو اس صورت میں بھائی اس ادا شدہ قرض کی رقم کو والد کےترکہ سے لینے کا مستحق ہوگا، اگرچہ اس نے قرض کی ادائیگی کے وقت، والد کے ترکے سے واپسی لینے کی شرط نہ لگائی ہو، لہذا ایسی صورت میں ترکہ کی تقسیم کے وقت والد کے ترکہ میں سب سے پہلے بھائی کی اُتنی رقم الگ کرکے اسے دیدی جائے گی جو اس نے اپنے مال سے والد کے قرضہ میں ادا کی ہے، اور اس کے بعد ترکے میں سے والد کا بقیہ آدھا قرضہ نکالا جائے گا، اور پھر اس کے بعد ترکہ کو ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔
میت کے ترکے سے چار حقوق کے متعلق ہونے کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:
التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف۔۔۔ ثم بالدين ۔۔۔ ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن و الدين إلا أن تجيز الورثة أكثر من الثلث ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث
ترجمہ: میت کے ترکے سے چار حقوق متعلق ہوتے ہیں: میت کا کفن دفن، قرض، وصیت اور وراثت۔ سب سے پہلے میت کے کفن اور دفن کے ضروری خرچوں میں مناسب انداز میں ترکہ کو خرچ کیا جائے گا، پھر دین کی ادائیگی ہوگی، پھر کفن دفن اور دین کی ادائیگی کے بعد بچنے والے مال کے تہائی حصے میں وصیت نافذ ہوگی، مگر یہ کہ ورثہ تہائی سے زیادہ کی اجازت دیدیں ،پھر بقیہ مال کو میراث کے حصوں کے مطابق ورثہ کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 6، صفحہ 447،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اگر وارث نے اپنے مال سے میت کا قرض ادا کیا ہو، تو وہ ترکہ سے اپنا مال لینے کا مستحق ہے، چنانچہ فتاوی بزازیہ میں ہے:
لو قضی الوصی أو الوارث دینا علی المیت من مال نفسہ یرجع
ترجمہ: اگر وصی یا وارث نے میت پر دین کو اپنے مال سے ادا کردیا،تو وہ رجوع کرے گا (یعنی میت کے مال سے اپنا حق وصول کرےگا)۔ (الفتاو ی البزازیۃ، جلد 2، کتاب الوصایا، صفحہ 573،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وارث اگر اپنے مال سے مورث کا قرض ادا کرے اور تبرعاً دینے کی صراحت نہ کرے،تو اگرچہ واپسی کی شرط نہ لگائے، پھر بھی مورث کے ترکہ سے رجوع کا مستحق ہوگا،چنانچہ فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے کچھ اسی طرح کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’قرضِ مورث کہ بکرپسر(بیٹے)بالغ نے ادا کیا، تمام و کمال ترکہ مورث سے مجرا (واپسی) پائے گا جبکہ وقتِ ادا تصریح نہ کردی ہوکہ مجرا (واپس) نہ لوں گا۔
فی فتاوٰی قاضیخان و العالمگیریۃ وغیرھما بعض الورثۃ اذا قضٰی دین المیت کان لہ الرجوع فی مال المیت والترکۃ انتھٰی۔ وفی جامع الفصولین والاشباہ وغیرھما لواستغرقھا دین لایملکھا بارث الا اذا ابرأ المیّت غریمہ أواداہ وارثہ بشرط التبرع وقت الاداء۔ أمّا لوادّاہ من مال نفسہ مطلقا بلاشرط تبرع أو رجوع یجب لہ دین علی المیّت فتصیر الترکۃ مشغولۃ بدینہ فلایملکھا
ترجمہ:فتاوٰی قاضی خان اورعالمگیریہ وغیرہ میں ہے کسی وارث نے میت کاقرض اداکیا، تو اسے میت کے مال اورترکہ کی طرف رجوع کا حق حاصل ہے انتہٰی۔ جامع الفصولین اوراشباہ وغیرہ میں ہے اگردین ترکہ کومحیط ہے تووارث میراث کے ساتھ اس ترکہ کامالک نہیں بنے گا، مگریہ کہ قرض خواہ میت کو بری کردے یامیت کے وارث نے ادائیگی کے وقت بشرط تبرع قرض اداکیاہو، لیکن اگراس نے مطلقاً اپنے مال سے قرض اداکیاہو، نہ اس میں تبرع کی شرط ہو اورنہ ترکہ میت کی طرف رجوع کی تومیت پر اس کادین ثابت ہوجائے گا توترکہ قرض اداکرنے والے وارث کے دین کے ساتھ مشغول ہوگا ، لہٰذا وہ اس کامالک نہیں بنے گا۔(فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 385، 386، رضا فا ؤ نڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: ’’اگر وصی یا وارث نے میت کا دین اپنے مال سے ادا کیا تو وہ میت کے مال سے لینے کا مستحق ہے‘‘۔ (بھار شریعت، جلد 3، حصہ 19، صفحہ 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-512
تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1446ھ / 18اگست 2024ء