
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر غیر شادی شدہ بیٹی یا بیٹا، والدین کی زندگی میں وفات پا جائے تو کیا اس کا والدین کی جائیداد میں حصہ یا حق بنتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
غیر شادی شدہ بیٹی یا بیٹا ہو یا شادی شدہ، جو والدین کی زندگی میں وفات پا جائے، والدین کے ترکہ میں اس کا حصہ نہیں ہوتا کہ والد یا والدہ کے ترکہ میں وہی اولاد وارث بنتی ہے، جو ان کے انتقال کے وقت زندہ ہو، لہذا ان کی زندگی میں انتقال کر جانے والے کا حصہ نہیں بنے گا۔
وراثت کی شرائط بیان کرتے ہوئے رد المحتار میں فرمایا:
و وجود وارثہ عند موتہ حیا حقیقۃ او تقدیرا
یعنی: مورث کی وفات کے وقت وارث کا حقیقۃً یا تقدیرا زندہ موجود ہونا۔ (رد المحتار، جلد 6، صفحہ 758، دار الفکر، بیروت)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لا حق لابن مات قبل ابیہ فی ترکۃ ابیہ
یعنی جو بیٹا اپنے والد سے پہلے انتقال کر گیا، اس کا اپنے والد کے ترکہ میں کوئی حق نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 383، رضا فاؤندیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4065
تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر 1447ھ/ 28 جولائی 2025ء