رضاعی بیٹے کا وراثت میں حصہ ہوگا؟

رضاعی بیٹے کا وراثت میں حصہ بنتا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ چند دن پہلے میرے والد صاحب انتقال فرما گئے تھے۔ اب ہم ان کی جائیداد تقسیم کرنے لگے ہیں اور ہمارا ایک رضاعی بھائی بھی ہے، تو کیا شرعی طور پر وراثت میں اسے بھی حصہ دیا جائے گا؟ جبکہ اس سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہے، محض دودھ کا رشتہ ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ کے رضاعی بھائی کا آپ کے والد کی جائیداد میں بطورِ وراثت کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ قواعدِ وراثت کے مطابق رضاعت، اسبابِ وراثت میں سے نہیں ہے، نیز رضاعی اولاد کا رضاعی والدین سے نسب کے اعتبار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ ان سے صرف دوددھ کا رشتہ ہوتا ہے اور رضاعت صرف حرمت کے معاملے میں مؤثر ہوتی ہے، اس کے علاوہ بقیہ احکام میں رضاعی اولاد اور رضاعی والدین باہم اجنبی کی طرح ہوتے ہیں، اسی وجہ سے رضاعی والدین کی گواہی، رضاعی اولاد کے حق میں مقبول ہے، یونہی ان کا نفقہ بھی لازم نہیں ہوتا، لہٰذا بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں رضاعی اولاد وراثت سے حصہ بھی نہیں پائے گی۔

وراثت کا دارو مدار نسبی رشتہ داری پر ہے، رضاعت و اخوت کی بنا پر وراثت کا استحقاق نہیں ہوگا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ مِنْكُمْؕ- وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِؕ- اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: اور جواس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا وہ بھی تمہیں میں سے ہیں اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں (وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (القرآن الکریم، پارہ 10، سورۃ الانفال، آیت 75)

مذکورہ بالا آیت کے تحت امام علاؤ الدین محمد بن علی المعروف امام خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 741ھ) لکھتے ہیں:

كانوا يتوارثون بالهجرة والاخاء حتى نزلت هذه الآية:﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ﴾ ای في الميراث ای فبين بهذه الآية ان سبب القرابة اقوى و اولى من سبب الهجرة و الاخاء و نسخ بهذه الآية ذلك التوارث

ترجمہ: صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہجرت اور اخوت کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: اور (نسبی) رشتے دار وراثت میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، یعنی اس آیت میں بیان کیا گیا کہ(نسبی) رشتے دار ہجرت اور اخوت کے مقابلے میں وراثت میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں اور اس آیت کے ذریعے ہجرت اور اخوت کی وجہ سے وراثت میں حق دار منسوخ فرما دی گئی۔(تفسیر خازن، جلد 2، صفحہ 331، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں ہے: ”اب وراثت کا دارو مدار نسبی قرابت داری پر ہے جیسا کہ آیت

وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ

سے واضح ہے۔ رضاعی رشتے کی وجہ سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہیں اور سسرالی رشتے میں بھی صرف شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے وارث ہیں۔“ (صراط الجنان، جلد 4، صفحہ 56، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

رضاعت، وراثت کے اسباب میں سے نہیں ، جیسا کہ الاختیار لتعلیل المختار اور فتاوی عالمگیری میں ہے،

و النظم للاول: يستحق الارث برحم ونكاح و ولاء

ترجمہ: استحقاقِ وراثت نسبی رشتہ داری، نکاح اور ولاء (یعنی عتاق و مُوالات) کی بنا پر ہوتا ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، كتاب الفرائض، جلد 5، صفحہ 86، مطبوعہ مطبعة الحلبي، القاهرة)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) در مختار کے حوالے سے لکھتے ہیں:

و فیہ من کتاب الفرائض و یستحق الارث باحد ثلثۃ برحم و نکاح صحیح

ترجمہ: اور اسی (در مختار) کے کتاب الفرائض میں ہےکہ وراثت کا حقدار ہونا تین اسباب میں سے ایک سبب سے ہوتا ہے: رشتۂ رحم (یعنی نسبی رشتہ داری) ہو اور نکاح صحیح ہو۔ (فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 341، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

در مختار کی مذکورہ عبارت کے الفاظ

باحد ثلثۃ

کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں:

يعني ان كل واحد منها علة للاستحقاق بمعنى انه لا يلزم اجتماع الثلاثة او بعضها

یعنی ان تین میں سے ہر ایک وراثت کے حقدار ہونے کی علت ہے اس معنی میں کہ تینوں یا ان میں سے بعض اسباب کا اکٹھا ہونا لازم نہیں۔ (حاشیۃ ابن عابدین، جلد 10، صفحہ 532، مطبوعہ کوئٹہ)

رضاعت صرف حرمت کے معاملے میں مؤثر ہوتی ہے، بقیہ احکام میں رضاعی والدین اور رضاعی اولاد باہم اجنبی ہوتے ہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

قالت عائشة:يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة

ترجمہ: حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہَا فرماتی ہیں: جو رشتے ولادت (نسب) سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت (دودھ کے رشتے کی وجہ) سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ (الصحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 38، مطبوعہ دار طوق النجاة، بيروت)

مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ / 1605ء) لکھتے ہیں:

فيه دليل على انه يحرم النكاح و يحل النظر و الخلوة و المسافرة لكن لا يترتب عليه احكام الامور من كل وجه فلا يتوارثان ولا يجب على واحد منهما نفقة الآخر و لا يعتق عليه بالملك و الا يسقط عنها القصاص بقتله فهما كالاجنبيين في هذه الاحكام

ترجمہ: حدیث پاک میں اس بات پردلیل ہے کہ نکاح کرنا حرام ہو جاتا ہے، البتہ نظر، خلوت اور سفر کرنا، جائز ہو جاتا ہے، لیکن اس پر تمام امور کے احکام مرتب نہیں ہوتے، لہٰذا ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے، ان میں سے کسی پر دوسرے کا نفقہ لازم نہیں ہوگا، کسی ایک کا دوسرے کے مالک ہونے سے وہ اس پر آزاد نہیں ہوگا اور ان میں سے کسی ایک کے دوسرے کو قتل کرنے سے قصاص ساقط نہیں ہوگا، لہٰذا ان احکام میں یہ دونوں اجنبیوں کی طرح ہوں گے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 5، صفحہ 2077، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:

و يجوز شهادة الرجل لوالده من الرضاعة و والدته، لان الرضاع تأثيره في الحرمة خاصة، و فيما وراء ذلك كل واحد منهما من صاحبه كالأجنبي (الا ترى) انه لا يتعلق به استحقاق الارث و استحقاق النفقة حالة اليسار و العسرۃ

ترجمہ: آدمی کی اپنے رضاعی والداور والدہ کے حق میں گواہی جائز ہے، کیونکہ رضاعت بطورِ خاص حرمت میں مؤثرہوتی ہے اور اس کے علاوہ بقیہ تمام احکام میں رضاعی والدین اور رضاعی اولاد اجنبی کی طرح ہوتے ہیں، کیا تُو دیکھتا نہیں کہ رضاعت کی وجہ سے حقِ وراثت اور تنگی و آسانی دونوں حالتوں میں نفقہ ثابت نہیں ہوتا۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 16، صفحہ 125،مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)

یونہی علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 616ھ / 1219ء)  نے لکھا۔ (المحیط البرھانی، جلد 8، صفحہ 324، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9063

تاریخ اجراء: 23 صفر المظفر 1445ھ / 29 اگست 2024ء