
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2743
تاریخ اجراء:04 شعبان المعظم 1446 ھ/03 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنے بچوں میں سے کچھ کی شادی اپنی زندگی میں کر دے اور کچھ کی ابھی اس نے شادی نہ کی ہو کہ اس کا انتقال ہوجائے، تو جن بچوں کی باپ نے شادی نہیں کی تھی، وراثت تقسیم کرتے وقت وہ اپنے شادی شدہ بھائی، بالخصوص شادی شدہ بہن کو یہ کہتے ہیں کہ تم لوگوں کی شادی میں والد صاحب نے بہت خرچہ کر دیا تھا، تمہیں جہیز دے دیا تھا، وہی تمہارا حصہ تھا، لہٰذا اب وراثت میں تمہارا حصہ نہیں ہے، یا پہلے وہ خرچہ مائنس کر کے ہمیں دیاجائے، پھر وراثت تقسیم کی جائے۔ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ ایسی صورت میں باپ نے اپنی زندگی میں جن بچوں کی شادی کی تھی، ان کو حصہ ملے گا؟ اگر ملے گا تو پورا حصہ ملے گا یا شادی کا خرچہ مائنس کر کے باقی ملے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زمانہ جاہلیت میں لوگ یتیم بچوں، عورتوں یا جو مجبور ہوتے تھے، ان کی وراثت ظلماً اور مختلف طرح کے حیلے بہانوں سے کھاجایا کرتے تھے، جس کی مذمت قرآن و حدیث میں بہت واضح طور پر بیان ہوئی ہے، یہی ناسور ہمارے معاشرے کے بعض افراد میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ مختلف حیلے بہانوں سے جن پر زور چلتا ہے، ان کا مالِ وراثت سے حصہ کھاجاتے ہیں، حالانکہ نہ یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے اور نہ ہی اسلام کی تعلیمات، بلکہ اسلام نے جن لوگوں کو وراثت سے جتنا جتنا حصہ دیا ہے، ان کو ان کا پورا حصہ دینا لازم ہے، ورنہ یہ ناحق کھانے والے اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھریں گے اور سخت عذاب کے حق دار ہوں گے۔
سوال میں بیان کر دہ بات بھی کہ والد نے فلاں بیٹے یا بیٹی کی شادی کر دی تھی، یا جہیز دے دیا تھا، تو اب والد کے ترکہ میں اس کا حصہ نہیں بنتا، بالکل باطل حیلہ اور بہانہ ہے، کیونکہ اولاً: باپ پر اس کے بچوں کی شادی کے اخراجات شرعاً لازم یا اس کے ذمہ واجب نہیں ہوتے، کہ باپ کے فوت ہونے کے بعد یہ اخراجات باپ کے ترکہ میں دَین (قرض) بن جائیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ فقط تبرع یعنی خیر خواہی، احسان اور اخلاقی طور پر باپ یہ اخراجات برداشت کرتا ہے۔ ثانیاً: کسی وارث کو وراثت نہ دینے کے چار اَسباب ہیں، ان میں سے کوئی ایک سبب پایا جائے تو وراثت سے حصہ نہیں ملتا اور اولاد میں سے کسی کا شادی شدہ ہونا ان اَسباب میں سے نہیں ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں کنوارے بھائی بہنوں کا شادی شدہ بھائی بہنوں کو شادی کے اخراجات کی وجہ سے باپ کی وراثت سے حصہ بالکل بھی نہ دینا یا جتنا ان کا حصہ بنتا ہے، اس سے کم دینا سخت ناجائز و حرام اور ناحق دوسرے کا مال کھانا ہے، جس سے قرآن و حدیث میں بہت سختی سے منع کیا گیا ہے۔
ناحق مالِ وراثت کھانے والوں کے متعلق وعیدات:
درست طریقے سے وراثت تقسیم نہ کرنے والوں سے متعلق قرآنِ پاک میں ہے: ﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خٰلِدًا فِیْہَا ۪ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴾ ترجمۂ کنز العرفان: ”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے رسوا کُن عذاب ہے۔“(پارہ 4، سورۃ النساء، آیت 14)
وراثت سے دوسرے کا حصہ کھانا، یہ تو کفار کا طریقہ ہے ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں کفار کی اس برائی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :﴿وَ تَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا﴾ ترجمۂ کنز العرفان: ”اور میراث کاسارا مال جمع کر کے کھا جاتے ہو۔“(پارہ 30، سورۃ الفجر، آیت 19)
اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”یہاں کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھا جاتے ہو اور حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے اور عورتوں اور بچوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے ، بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو؛ جاہلیت میں یہی دستور تھا۔ اس بیان کردہ ظلم میں بہت سی صورتیں داخل ہیں اور فی زمانہ جو چچا تایا قسم کےلوگ یتیم بھتیجوں کے مال پر قبضہ کر لیتے ہیں یا روٹین میں جو بہنوں، بیٹیوں یا پوتیوں کو راثت نہیں دی جاتی، وہ بھی اسی میں داخل ہے کہ شدید حرام ہے۔“(صراط الجنان، جلد 10، صفحہ 668، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اگر کسی طرح بھی ورثاء کو ان کا حصہ نہیں دیں گے یا کم دیں گے ، تو یہ ناحق مال کھانا ہوگا ، جبکہ اللہ عز و جل کا فرمانِ عبرت نشان ہے :﴿وَلَا تَاْکُلُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنز الایمان :’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ۔‘‘(پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت 188)
اس آیت کے تحت تفسیر نعیمی میں ہے :’’رشوت، غصب، لوٹ، چوری، جھوٹی قسمیں، جُوا، کہانت، خیانت و غیرہ ناجائز پیشے، یہ سب باطل آمدنیاں ہیں : یعنی نہ تو تم اپنے مال غلط طرح خرچ کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کر کے استعمال کرو۔‘‘(تفسیر نعیمی، ج 2، ص 232، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، لاھور)
کسی وارث کی میراث نہ دینے والے کے متعلق حدیث پاک میں ہے :”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا، صفحہ 194، مطبوعہ کراچی)
وراثت تقسیم نہ کرنے سے دوسرے کی زمین غصب کرنا لازم آئے گا، جس کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے :’’من اخذ شبرا من الارض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین‘‘ ترجمہ :جو ایک بالشت زمین غصب کرے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصہ اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔(صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 454، مطبوعہ کراچی)
اس حدیث پاک کے تحت مرأۃ المناجیح میں ہے :”پہلے تو اس غاصب کو زمین کے سات طبق کا طوق پہنایا جائے گا، پھر اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔۔۔ معلوم ہوا کہ زمین کا غصب دوسرے غصب سے سخت تر ہے۔‘‘(مرأۃ المناجیح، ج 4، ص 361، مکتبہ اسلامیہ، لاھور)
شیخ الاسلام و المسلمین امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ناحق زمین ہتھیانے والے کے بارے میں فرماتے ہیں :’’اللہ قہار و جبار کے غصب سے ڈرے، ذرا مَن دو مَن نہیں، بیس پچیس ہی سیر مٹی کے ڈھیلے گلے میں باندھ کر گھڑی دو گھڑی لئے پھرے، اُس وقت قیاس کرے کہ اس ظلمِ شدید سے باز آنا آسان ہے یا زمین کے ساتوں طبقوں تک کھود کر قیامت کے دن تمام جہان کا حساب پورا ہونے تک گلے میں، معاذ اللہ! یہ کروڑوں مَن کا طوق پڑنا اور ساتویں زمین تک دھنسا دیا جانا۔ وَ الْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالیٰ!‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 665، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
سوال میں بیان کردہ مسئلے کے متعلق دلائل:
اولاد میں جو بچہ اپنے باپ کی وفات کے وقت زندہ ہو ، وہ وارث بنتا ہے، چنانچہ وراثت کی شرائط کے متعلق رد المحتار میں ہے :”و شروطہ ثلاثۃ۔۔۔ و وجود وارثہ عند موتہ حیا الخ“ ترجمہ: وراثت کی تین شرائط ہیں :( دوسری شرط یہ ہے کہ جس شخص کی وراثت تقسیم ہورہی ہے،) اُس کی موت کے وقت وارث بننے والا شخص زندہ ہو۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الفرائض، جلد 10، صفحہ 525، مطبوعہ کوئٹہ)
وارث کو وراثت سے محروم کرنے کے اسباب کے متعلق شیخ الاسلام و المسلمین سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”وراثت سے محرومی کے صرف چار سبب ہیں کہ وارث غلام ہو، یا مورِث کا قاتل، یا کافر ہو، یا دار الحرب میں رہتا ہو، باقی کوئی ناقابلیت اسے اس کے حقِ شرعی سے محروم نہ کرے گی۔“(فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 291، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
باپ اپنے بچوں کی شادی میں جو اخراجات کرتا ہے ، وہ تبرع اور احسان ہوتا ہے، جیسا کہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”وہ روپیہ کہ زید (باپ)نے ابو محمد (اپنے بیٹے) کی شادی میں صَرف (خرچ)کیا، بحکمِ عُرف شائع و عام تبرع و احسان قرار پائے گا کہ زید(باپ خود بھی)اس (کی واپسی)کا مطالبہ کسی سے نہیں کر سکتا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 210، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
باپ نے کسی بچے کی شادی نہیں کی، تو یہ غیر شادی شدہ بچہ شادی کے اخراجات وراثت سے مائنس نہیں کر سکتا، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ خالد کہتا ہے کہ والد نے میری شادی اپنی زندگی میں نہیں کی تھی، باقیوں کی کی تھی، تو میری شادی کا خرچہ وراثت سے مائنس کر کے مجھے الگ سے دیا جائے، کیا خالد کو یہ خرچہ اسے ملے گا یا نہیں؟ اس کے جواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”شادی کا صَرف (خرچہ) مانگنا محض بے معنیٰ ہے جس کی شرع مطہر میں کچھ اصل نہیں، مصارفِ شادی زید(والد) پر دَین نہ تھے کہ ا س کے ترکہ سے لیے جائیں، کما لا یخفی علی أحد ممن لہ مساس بالعلم(جیسا کہ علم سے مس رکھنے والے کسی شخص پر پوشیدہ نہیں)۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 170، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ہی ایک اور مقام پر شادی کی وجہ سے وراثت میں فرق نہ پڑنے کے حوالے سے لکھتے ہیں: ”فارسی عبارت کا ترجمہ یہ ہے" بعض اولاد کاباپ کی زندگی میں کنوارہ رہ جانا اس بات کا سبب نہیں بنتا کہ ان کاحصہ شادی شدہ اولاد پر زیادہ ہوجائے ، کیونکہ میراث موت کے بعد یاموت کے وقت ثابت ہوتی ہے ۔ موت سے پہلے میراث بالاجماع ثابت نہیں ہوتی اور جوکچھ بعض اولاد کو مورث کی طرف سے موت سے قبل بطور تبرع موصول ہوا اس کو میراث میں سے شمار کرنا،ممکن نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 26، صفحہ 76، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
تنبیہ! اسی طرح بعض اوقات والد کے انتقال کے بعد بڑا بھائی، چھوٹے بھائی بہنوں کی شادی کے اخراجات مالِ وراثت سے ہی کرتا ہے، لیکن جس بھائی بہن کی شادی میں اخراجات کیے جارہے ہوتے ہیں، اس سے بات چیت نہیں کی جاتی کہ یہ اخراجات تمہارے بننے والے حصہ سے کیے جارہے ہیں اور یہ سب تمہارے حصہ سے مائنس ہوں گے، اس طرح کی کوئی بات چیت نہیں ہوتی اور پھر بعد میں وراثت تقسیم کرنے کے وقت اس بھائی یا بہن کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا، جبکہ اس صورت میں بھی جب چھوٹے بھائی بہن سے ان اخراجات کے مائنس ہونے کی بات چیت کیے بغیر شادی کے اخراجات کیے یا بہن کو جہیز بنا کر دیا، تو ان کا حصہ نہ ختم ہوگا اور نہ ہی ان کے حصے سے وہ اخراجات مائنس ہوں گے ، بلکہ ان کو ان کا پورا حصہ ملے گا، ہاں اگر کسی نے پہلے سے بات چیت کی ہو ، تو پھر دار الافتاء اہلسنت میں یا اپنے علاقہ کے معتمد و مستند سنی مفتی صاحب کو مکمل تفصیلات بتا کر اس کی الگ سے رہنمائی لی جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے، خود سے فیصلہ کر کے کسی دوسرے کا حق ہرگز نہ کھایا جائے۔
والد کے انتقال کے بعد کوئی بھائی اپنی بہن کی شادی کے اخراجات کرے، تو اس کے متعلق فتاویٰ رضویہ میں ہے: ”مصارف شادی: عبارتِ سوال میں مذکور کہ دونوں قاصرہ (دُلہنیں) وقتِ شادی جوان تھیں اور سائل نے بعدِ استفسار بذریعہ تحریر اظہار کیا کہ مصارفِ عروسی وجہیز سب بکر ( بھائی)نے محض اپنی رائے سے کئے، والدہ کا انتقال دونوں قاصرہ کی شادی سے پہلے ہوا، اور بہنیں ان کی شادیوں میں عام بیگانوں کی طرح شریک ہُوئیں نہ ان سے دربارہ صَرف کوئی استفسار ہوا، نہ اُن کا کوئی اذن، نہ قاصرات سے کہا گیا کہ ہم یہ صَرف تمہارے حصّہ سے کرتے یا جہیز تمہارے حصّے میں دیتے ہیں اور واقعی ہمارے بلاد میں مصارفِ شادی کنواریوں سے پُوچھ کر نہیں ہوتے، نہ اُن سے ا س امر میں کوئی اذن لیا جاتا ہے، پس اگر بیانِ مذکور صحیح ہے تو جو کچھ مصارف بالائی جس قاصرہ کی شادی میں ہُوئے، وہ دُلہن کے حصّہ سے مُجرا (مائنس)نہیں ہوسکتے۔۔۔ ان (بہن کی شادی کے) مصارف میں جو کچھ بکر ( بھائی) نے صَرف کیا، بہنوں کے ساتھ تبرع واحسان ہوا، جو کسی سے مُجرا نہ پائے گا۔ (یعنی مائنس نہ ہوگا) سب صَرف اسی کے حصہ پر پڑے گا۔ خواہ ضماناً خواہ قصاصاً۔ دوسرے ورثہ جنہوں نے نہ خود صَرف کیا نہ صراحۃً اذن دیا، (وہ اس سے) بری رہیں گے اگر چہ اُنہوں نے صَرف ہوتے دیکھا۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد12، صفحہ215، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاویٰ خلیلیہ میں ہے :”بیٹی کی شادی میں جو کچھ خرچ کیا گیا، اگر ان سے خرچ کے بارے میں کوئی استفسار نہ کیا گیا، نہ اجازت لی گئی، تو یہ رقم دولہن کے حصہ سے مُجرا (مائنس)نہ کی جائے گی ، بلکہ خرچ کرنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا۔۔ ۔۔ لہٰذا یہ خرچ بہن کے ساتھ احسان مانا جائے گا۔“( فتاویٰ خلیلیہ، جلد 3، صفحہ 483، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میت کے ترکے سے تیجے،چالیسویں کا کھانا کھلانا کیسا؟
غیر مسلم اولا د مسلمان والدین کی وارث بن سکتی ہے یا نہیں؟
کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟
والدین سے ان کی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا کیسا؟
مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
بیٹیوں کو حصہ نہ دینا کیسا ؟
زندگی میں وراثت تقسیم کرنا کیسا ؟