
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جدید بایو ٹیکنالوجی اور کاسمیٹک انڈسٹری نے "Breathable" یا "Permeable" نیل پالش متعارف کروائی ہے جسے "Halal Nail Polish" کہا جاتا ہے۔اس نیل پالش کے اجزاء پاک اور حلال ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نیل پالش ایسی ہوتی ہے جو پانی اور آکسیجن کو ناخن کی سطح تک پہنچنے دیتی ہے۔ایسی نیل پالش میں مخصوص پولیمرز استعمال کیے جاتے ہیں، جو مائیکرو اسکوپک سوراخوں کے ذریعہ آکسیجن اور پانی کو گزرنے دیتے ہیں۔بعض معروف برانڈز نے حلال سرٹیفکیشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سائنسی لیبارٹری رپورٹس بھی فراہم کی ہیں، جو ان کی مصنوعات کی permeable خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسی نیل پالش لگا کر وضو و غسل وغیرہ مکمل ہو جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں جس "Breathable" نیل پالش کا ذکر ہے اس طرح کی نیل پالش بھی اگر ناخنوں پر لگی ہو تو وضو اور غسل مکمل نہیں ہوگا ، لہٰذا وضو و غسل درست کرنے کے لئے ایسی نیل پالش کو اتار کر وضو و غسل کرنا ضروری ہوگا ۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ مختلف کمپنیاں "Breathable" نیل پالش بناتی ہیں اوروہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ نیل پالش ایسی ہے جس سے پانی گزر کر کے نیچے جلد تک چلا جاتا ہے۔اس دعوے کے ثبوت کے لئے جو مختلف قسم کی تحقیقات یا تجربات کیے گئے ہیں ان سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی کا دعوی غلط نکلتا ہے اور پانی اس نیل پالش کی تہہ سےنیچے نہیں پہنچتا۔ اور بعض تجربات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ نیل پالش پر پانی ڈالنے کے بعد اس کو انگلی کے ساتھ مساج کی طرح ملتے رہیں تو پھر دس پندرہ سیکنڈ کے بعد پانی نیچے پہنچتا ہے ۔ یعنی اگرفقط پانی اس پر ڈال دیا اور اس کو اوپر سے مَلا نہیں تو وہ پانی نیچے نہیں جائےگا۔ پھر اس میں نیل پالش کی تہہ موٹی اور باریک ہونے کے اعتبار سے بھی فرق پڑسکتا ہے۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ بہت موٹی تہہ لگی ہو تو رگڑنے سے بھی پانی نیچے نہ جائے یا زیادہ وقت درکار ہو۔
ان تجربات کی وضاحت ایک ریسرچ پیپر میں کی گئی ہے جس کا اقتباس درج ذیل ہے:
"here are several experiments that have been done to prove the permeability of the said products. For INGLOT O2M Breathable Nail Enamel, the company of the product had claimed that they used the technology of contact lenses whereby the oxygen and moisture easily penetrate the applied area (inglotcosmetics.com). There are several Muslims that have tested the permeability of the product in order to be confident to wear in performing their prayers [1]. Most of them applied the nail polish to the coffee filter as to mimic the permeability simulation. The experiments are varied in results. Some of the results proved the claim but some did not. A well-documented experiment made by a blog named Reemfaruqi.com provided the satisfaction of the claim. The blogger compared the INGLOT’s nail polish and a regular nail polish called Sally Hansen Insta-Dri® Nail polish. When the water is dropped on the surface of applied nail polish, the water did not go through both of the coffee filters. But when the water is rubbed on the INGLOT’s nail polish, the water is spread and permeates at the bottom of the filter. This shows that INGLOT O2M Breathable Nail Enamel indeed has the permeability characteristic but with the help of little trick: rubbing it down and its process is a bit of time consuming."(Halal Services and Contemporary Issues, Halal Nail Polish, Pg:55&56, Published by: Yamani Angle Sdn. Bhd. Kuala Lumpur)
بہر حال اس تفصیل سے ایک بات تو سامنے آتی ہے کہ ”Breathable Nail Polish“کےاوپر پانی ڈالنے سے وہ فورا نیچے نہیں جاتا بلکہ اس کو رگڑنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے ایسی احتیاط توتقریباً ناممکن ہے کہ ناخنوں کے ہر ہر ذرے پر اتنا رگڑا جائے کہ پانی نیچے پہنچ جائے۔
اور بالفرض اگر ایسا کر بھی لیا جائے کہ نیل پالش کے نیچے ہر ذرے پر پانی پہنچ جائے تب بھی اس سے وضو وغسل نہیں ہوگا۔ کیونکہ شریعت نے غسل میں تمام ظاہری بدن کو اور وضو میں سر کے علاوہ دیگر تین اعضاء کو دھونے کا حکم دیا ہے ۔ محض پانی پہنچانے کا حکم نہیں دیا۔ قرآن پاک میں اس کے لئے لفظ ” فَاغْسِلُوْا “ استعمال ہوا ہے۔ اور ”غَسل “ کا لغوی اور شرعی مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز پر پانی بہا دیا جائے۔ اور صحیح قول کے مطابق ہر حصے پر کم از کم دو قطرے پانی بہہ جائے تو پھر ” غَسل (دھونے) “کا حکم پورا ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے تیل کی طرح پانی جسم پر چُپڑ لیا تو اسے مسح کرنا یا جسم پر تری پہنچانا تو کہا جا سکتا ہے لیکن لغوی اور شرعی طور پر یہ "دھونا "نہیں ہے۔ لہذا اس طرح کرنے سے وضو و غسل مکمل نہیں ہوگا۔
یونہی علماء فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے برف کا ٹکڑا لے کر تمام اعضائے وضو پر مل لیا تو اس سے وضو نہیں ہوگا، کیونکہ برف سے جسم کا وہ حصہ تَر تو ہوتا ہے لیکن اس تری پہنچنے کو دھونا نہیں کہا جاتا، لہٰذا اس طرح وضو درست نہیں ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ کاسمیٹک انڈسٹری میں اس طرح کی نیل پالش کو "Halal Nail Polish" کہہ کریا " Wudhu-Friendly Nail Polish" کہہ کر جو یہ تصور پھیلایا جا رہا ہے کہ اس نیل پالش کواتارے بغیر بھی وضو ہو جاتا ہے، تو یہ تصور بالکل غلط اور قرآن کی نصوص و اجماع کے خلاف ہے۔
اب نصوص و عباراتِ علماء ملاحظہ فرمائیں:
وضو کے فرائض کے متعلق قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ﴾
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو !جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو، تو اپنے منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤں دھوؤ۔ ( پارہ6، سورۃ المائدہ، آیت 6)
اس آیت مبارکہ کو لکھنے کے بعد مشہور حنفی فقیہ امام کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :
” أمر بغسل الأعضاء الثلاثة، ومسح الرأس فلا بد من معرفة معنى الغسل والمسح فالغسل هو إسالة المائع على المحل، والمسح هو الإصابة، حتى لو غسل أعضاء وضوئه، ولم يسل الماء، بأن استعمله مثل الدهن، لم يجز في ظاهر الرواية. . . . . وعلى هذا قالوا: لو توضأ بالثلج، ولم يقطر منه شيء لا يجوز، ولو قطر قطرتان، أو ثلاث، جاز لوجود الإسالة، وسئل الفقيه أبو جعفر الهندواني عن التوضؤ بالثلج، فقال: ذلك مسح، وليس بغسل، فإن عالجه حتى يسيل يجوز ۔ ملتقطا “
تین اعضا دھونے اور سر کا مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔لہٰذا دھونے اور مسح کے معنی کا جاننا ضروری ہے۔تو غَسل(دھونا) یہ ہے کہ کسی محل پر پانی بہایا جائے، اور مسح یہ ہے کہ پانی پہنچایا جائے ۔پس اگر کسی نے اعضائے وضو کو دھویا، لیکن پانی بہایا نہیں ، بلکہ تیل کی طرح جسم پر استعمال کیا، تو ظاہر الروایہ کے مطابق وضو جائز نہیں ہوگا۔ اسی بنا پر فقہاء نے کہا: اگر کسی نے برف سے وضو کیا اورجسم سے پانی نہ ٹپکا، تو وضو جائز نہیں، اور اگر دو یا تین قطرے ٹپک جائیں تو جائز ہے، کیونکہ اس میں پانی بہنے (اسالۃ) کا معنی پایا جائے گا۔اور فقیہ ابو جعفر الہندوانی سے برف سے وضو کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ مسح ہے، غسل نہیں، پس اگر اسے کسی حیلے سے اس طرح استعمال کرے کہ پانی بہنے لگے، تو وضو جائز ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ 3، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
”الغسل: هو الإسالة والمسح هو الإصابة. كذا في الهداية.وفي شرح الطحاوي أن تسييل الماء شرط في الوضوء في ظاهر الرواية فلا يجوز الوضوء ما لم يتقاطر الماء۔۔۔ففي مسألة الثلج إذا توضأ به إن قطر قطرتان فصاعدا يجوز إجماعا وإن كان بخلافه فهو على قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى لا يجوز۔۔۔ والصحيح قولهما. كذا في المضمرات ، ملتقطا “
غَسل: اسالہ یعنی بہانا ہے، اور مسح: اصابت یعنی پانی پہنچانا ہے۔ایسا ہی "الہدایہ" میں ہے۔اور "شرح الطحاوی" میں ہے کہ پانی بہاناوضو میں ظاہر الروایہ کے مطابق شرط ہے، پس جب تک پانی نہ ٹپکے، وضو جائز نہیں۔لہٰذا برف سے وضو کرنے کے مسئلہ میں اگر اس سے دو قطرے یا اس سے زیادہ ٹپک پڑیں، تو بالاتفاق وضو جائز ہے، اور اگر ایسا نہ ہو، تو امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق جائز نہیں۔اور ان دونوں کا قول ہی صحیح ہے۔ایسا ہی "المضمرات" میں ہے۔(الفتاوى الهندية ، جلد1، صفحہ 3، دار الفکر، بیروت)
” لو لم يسل الماء بأن استعمله استعمال الدهن لم يجز في ظاهر الرواية وكذا لو توضأ بالثلج ولم يقطر منه شيء لم يجز “
اگر پانی کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ بہے نہیں، بلکہ تیل کی طرح لگایا جائے، تو ظاہر الروایہ کے مطابق وضو جائز نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر برف سے وضو کیا اور جسم پر پانی بہہ کر نہ ٹپکا، تو وہ بھی جائز نہیں ہوگا۔(البحر الرائق ، جلد1، صفحہ 11، دار الکتاب الاسلامی)
امام اہل سنت امام احمدر ضا خان رحمہ اللہُ نے اپنے متعدد فتاویٰ میں اس بات کو بیان کیا ہے ، چنانچہ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں :
”اجماع ہے کہ غَسل بالفتح یعنی کسی عضو کے دھونے میں اُس پر پانی کا بہنا ضرور ہے، صرف تر ہوجانا کافی نہیں ؛کہ وہ مسح ہے اور حضرت عزت عزجلالہ، نے غسل ومسح دو۲ وظیفے جُدا رکھے ہیں
الاما حکی عن الامام الثانی رحمہ اللہ وھو مؤول کما تقدم “(فتاوی رضویہ، جلد2، صفحہ688، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
” لوگ یہاں دو قسم کی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جن سے غسل نہیں ہوتا اور نمازیں اکارت جاتی ہیں۔ اولاً:غَسل بالفتح کے معنی میں نافہمی کہ بعض جگہ تیل کی طرح چپڑ لیتے ہیں یابھیگا ہاتھ پہنچ جانے پر قناعت کرتے ہیں حالانکہ یہ مسح ہوا،غسل میں تقاطراور پانی کابہنا ضرور ہے جب تک ایک ایک ذرّے پر پانی بہتا ہوا نہ گزرے گا غسل ہرگز نہ ہوگا۔درمختار میں ہے:
غسل ای اسالۃ الماء مع التقاطر
ردالمحتار میں ہے:
البلّ بلاتقاطر مسح
اُسی میں ہے:
لولم یسل الماء بان استعملہ استعمال الدھن لم یجز“
(فتاوی رضویہ، جلد1(ب) ، صفحہ597، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں :
”مُنہ، ہاتھ، پاؤں تینوں عضوؤں کے تمام مذکور ذرّوں پر پانی کا بہنا فرض ہے۔۔۔ ہاتھ پھر جانا یا تیل کی طرح پانی چُپڑ لینا تو بالاجماع کافی نہیں
اللھم الامامر فی الرجلین
اور صحیح مذہب میں ایک بوند ہرجگہ سے ٹپک جانا بھی کافی نہیں کم سے کم دو بوندیں ہر ذرہ ابدان مذکورہ پر سے بہیں۔درمختار میں ہے:
غسل الوجہ ای اسالۃ الماء مع التقاطر ولو قطرۃ وفی الفیض اقلہ قطرتان فی الاصح اھ
چہرے کا دھونا یعنی ''تقاطر''کے ساتھ پانی بہانا اگر چہ ایک ہی قطرہ ٹپکے ، اور فیض میں ہے کہ اصح یہ ہے کہ کم از کم دو دو قطرے ٹپکیں اھ“ (فتاوی رضویہ، جلد1(الف) ، صفحہ287، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
جرم دار نرم چیز یں جس میں پانی سرایت کر جاتاہے خاص ان چیزوں کے حوالے سے بھی علماء نے واضح لکھا ہے کہ پانی اگرچہ سرایت کر کے جسم تک پہنچ جائے تب بھی طہارت مکمل نہ ہوگی کیونکہ فقط پانی پہنچنا کافی نہیں بلکہ بہنا شرط ہےکہ اسی کا قرآن نے حکم دیا ہے۔ اور وہ اس وقت تک نہ ہو سکے گا جب اس چیز کو جسم سے ہٹا نہ دیا جائے۔ (ہاں حرج و ضرورت کی صورتیں مستثنی ہیں۔)
درمختار و رد المحتار میں ہے:
”(ولا يمنع الطهارة ۔۔۔حناء ولو جرمه به يفتى ) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة. قال في شرحها ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن اهـ لكن يرد عليه أن الواجب الغسل وهو إسالة الماء مع التقاطر كما مر في أركان الوضوء. والظاهر أن هذه الأشياء تمنع الإسالة فالأظهر التعليل بالضرورة ۔ ملتقطا و مابین الھلالین من الدر“
مہندی طہارت میں رکاوٹ نہیں اگرچہ اس کا جرم لگا رہ گیا ،اسی پر فتویٰ دیا گیا ہے۔ اس کی تصریح صاحب ِ" منیہ" نے "الذخیرہ" کے حوالے سے مسٔلہ حنا، مٹی اور میل کے ضمن میں کی ہے، جبکہ اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ ایسا ضرورت کی بنا پر۔شارح منیہ نے اس کی علت بیان کرتے ہوئے کہا:" کیونکہ پانی اس میں سے گزر جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے اندر سرایت کر جاتا ہے کہ اس کے اندر ایسی لزوجت و سختی نہیں ہوتی( جو پانی کو سرایت سے روکے۔)اور ان تمام امور میں پانی کا سرایت کر کے بدن تک پہنچنے کا ہی اعتبار ہے۔" شارح منیہ کی اس علت پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ ان امور میں جو امر واجب ہے وہ غَسل(دھونا) ہے، اور دھونا اس وقت قرار پاتا ہے جب پانی یوں بہایا جائے کہ قطرے ٹپکیں جیسا کہ ارکان وضو میں گزر چکا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اشیاء(مہندی کا جرم، مٹی او رمیل) پانی کے بہنے کو روکتی ہیں۔لہذا زیادہ ظاہر یہی ہے کہ ان چیزوں کے لگے رہ جانے کی صورت میں بھی طہارت مکمل ہونے کی علت " ضرورت" کو قرار دیا جائے۔(الدر المختار ورد المحتار، جلد1، صفحہ 154، دار الفکر، بیروت)
امام اہل سنت امام احمدر ضا خان رحمہ اللہُ لکھتے ہیں : ” تحقیق یہ ہے کہ مدار کا ر ضرورت وحرج عام یا خاص پر ہے۔ اگر حرج نہیں طہارت نہ ہوگی، اگر چہ پانی سرایت کرے؛ کہ مجرد تری پہنچنا کافی نہیں، بہنا شر ط ہے ، اور وہ قطعا گارے وغیرہ جرم دار چیزوں میں بھی نہ ہوگا جب تک ان کا جرم زائل نہ ہو تو نرمی وسختی کا فر ق بیکار ہے۔ اور حرج وضرورت ہو اور طہارت کرلی اور ایسی چیز لگی رہ گئی اور نماز پڑھ لی تومعافی ہے اگر چہ سخت ومانع نفوذ ہو آخر مکھی مچھر کی بیٹ پر خود درمختار میں لم یصل الماء تحتہ فرما کر حکم دیا کہ لایمنع الطھارۃ اور مہندی کے جرم کو بھی مانع نہ مانا اور فرمایا بہ یفتی حالانکہ اس کا جرم خصوصا بعد خشکی یقینا نفوذ آب کو مانع ہے ۔“(فتاوی رضویہ، جلد1(الف) ، صفحہ290و291، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی عالمگیر ی میں ہے:
” إذا كان على بعض أعضاء وضوئه خرء ذباب أو برغوث فتوضأ ولم يصل الماء إلى ما تحته جاز؛ لأن التحرز عنه غير ممكن ولو كان عليه جلد سمك أو خبز ممضوغ قد جف فتوضأ ولم يصل الماء إلى ما تحته لم يجز؛ لأن التحرز عنه ممكن. كذا في المحيط“
اگر اس کے اعضائے وضو میں سے کسی پر مکھی یا پسو کی بیٹ ہو، اور اس نے وضو کیا لیکن پانی اس کے نیچے نہ پہنچا، تو وضو جائز ہے؛ کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔اور اگر اس پر مچھلی کی کھال یا چبائی ہوئی چپكنے والی روٹی لگی ہو جو خشک ہو چکی ہو ، اور اس نے وضو کیا اور پانی اس کے نیچے نہ پہنچا، تو وضو جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس سے بچنا ممکن ہے۔ ایسا ہی "المحيط" میں ہے۔ (الفتاوى الهندية ، جلد1، صفحہ5، دار الفکر، بیروت)
ان عبارات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ وضو اور غسل میں اعضاء کو دھونے کا جو حکم ہے وہ پانی کے بہہ جانے سے ہی پورا ہو سکتا ہے ۔ اور جسم پر کوئی چیز لگی ہو جو پانی کو جسم تک پہنچنے سے رکاوٹ بنے تو اس سے دھونے کا حکم پورا نہیں ہوگا اگرچہ پانی اس میں سے سرایت کر سکتا ہو۔ اور ”Breathable Nail Polish“ میں بھی اگرچہ پانی سرایت کر سکتا ہو تب بھی جسم پر پانی بہنے کی کیفیت نہیں ہوتی اور یہ نیل پالش لگانا کوئی شرعی ضرورت بھی نہیں ہے اس لئے اس نیل پالش کے لگے ہونے کی حالت میں وضو و غسل درست نہیں ہوگا۔
تنبیہ:
یہاں ایک اور بات واضح رہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہُ سے ایک روایت یوں بیان کی گئی ہے کہ ان کے نزدیک ”غَسل یعنی دھونے کا مطلب یہ ہے کہ تری جسم تک پہنچ جائے ، پانی بہے یا نہ بہے۔“
تو علماء نے یہ لکھا ہے کہ یہ روایت مؤول ہے۔ اوراس روایت میں جو یہ کہا گیا کہ ” پانی نہ بہے تو بھی دھونا ہو جائے گا“اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے قطرات چاہے کثرت سے نہ بھی بہیں دھونا ہو جائے گا۔ یعنی بہناتو ضروری ہے ، لیکن کثرت سے قطرات گرنا ضروری نہیں ۔ اگر ہم اس روایت کا یہ مفہوم نہ لیں اور فقط ظاہری مفہوم لے کر یہ کہہ دیں کہ "امام ابو یوسف کی اس روایت کے مطابق فقط تری پہنچنا بھی دھونا ہے۔"، تو یہ ایسی بات ہوگی جو قرآن کی نص کے خلاف ہے۔ اور امام ابو یوسف جیسی مجہتد شخصیت ایسی بات کی قائل نہیں ہو سکتی ۔
رد المحتار میں ہے:
”عن أبي يوسف هو مجرد بل المحل بالماء سال أو لم يسل. اهـ. . . . . . . ذكر في الحلية عن الذخيرة وغيرها أنه قيل في تأويل هذه الرواية إنه سال من العضو قطرة أو قطرتان ولم يتدارك. اهـ ملتقطا “
امام ابو یوسف سے ایک روایت یہ آئی ہے کہ "دھونا ، اعضاء وضو کو پانی سے صرف تر کر لینے کا نام ہے پانی بہے یا نہ بہے۔"صاحبِ حلیہ نے نے ذخیرہ وغیرہ کتب کے حوالے سے یہ بات بیان کی ہے کہ اس روایت کی تاویل اور وضاحت یوں کی گئی ہے کہ عضو سے ایک یا دو قطرے بہہ جائے اور کثرت سے قطرے نہ بہیں ، تو بھی دھونا ہو جائے گا۔(رد المحتار، جلد1، صفحہ 96، دار الفکر، بیروت)
جد الممتار میں ہے:
” الظّاهر أنّ المعنى: لم يتتابع القطر كثرةً، يقال: تدارك القوم أي: تلاحقوا “
ظاہر یہ ہے کہ لم يتداركکے معنی یہ ہیں کہ قطرات کثرت سے نہ بہیں، کہا جاتا ہے '' تدارك القوم " یعنی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے۔(جد الممتار، جلد1، مقولہ نمبر 34، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان ، امام ابو یوسف سے مروی ہونے والی روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” اماما عن ابی یوسف ان الغسل مجرد بلّ المحل بالماء سال اولم یسل ولاجلہ جعل فی البحر الاسالۃ مختلفا فیھا بینہ وبین الطرفین و زعم ان اشتراطھا ھو ظاھر الروایۃ فالحق الذی لامحید عنہ ولا یحل المصیر الا الیہ ان تأویلہ مافی حلیۃ عن الذخیرۃ انہ سال من العضو قطرۃ اوقطرتان ولم یتدارک کیف ولولا ذلک لکان ھذا والعیاذ باللہ تعالٰی انکار اللنّص وتبدیلا للشرع فان اللہ تعالٰی امر بالغسل وھذا لیس بغسل لالغۃ ولا عرفا وقد قال فی البحر نفسہ الغسل بفتح الغین ازالۃ الوسخ عن الشیئ ونحوہ باجراء الماء علیہ لغۃ اھ وھل الاجراء الا الاسالۃ وقد فرق المولی سبحنہ وتعالٰی بین الاعضاء فجعل وظیفۃ بعضھا الغسل وبعضھا المسح فانہ اذالم یسل الماء لم یکن الا اصابۃ بلل وھو المسح۔ اقــول: فما کان ینبغی لمثل ھذا المحقق البحران یجعلہ مختلفا فیہ کی یجترئ علیہ الجاھلون “
وہ جو امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ دھونا ، اعضاء وضو کو پانی سے صرف تر کر لینے کا نام ہے پانی بہے یا نہ بہے ، او راسی وجہ سے بحر میں بہانے کو امام ابو یوسف اور طر فین کے درمیان مختلف فیہ ٹھہرایا ہے اور ان کا خیال ہے کہ بہانے کا شرط ہونا یہ ظاہر الروایہ ہے۔تو حق جس سے انحراف نہیں اور جس کی طر ف رجوع کے سوا کچھ روا نہیں وہ یہ ہے کہ اس روایت کی تا ویل وہ ہے جو حلیہ میں ذخیرہ سے منقول ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عضو سے قطرہ دو قطرہ بہ جائے اور تسلسل کے ساتھ نہ گرے ۔ یہ حق کیوں نہ ہو اگر اس کا یہ مطلب نہ لیں تو معاذاللہ یہ نص کا انکار اور شر ع کی تبدیلی ہوگی اس لیے کہ اللہ تعالٰی نے دھونے کا حکم دیا ہے اور یہ لغۃ عرفا کسی طر ح بھی دھونا نہیں ۔ اور خود بحر میں لکھا ہے کہ غسل بفتح غین (دھونا)لغت میں کسی پر پانی بہاکر اس سے میل وغیرہ دو ر کرنے کا نام ہے اھ۔ اجرا ، اسالہ ، بہنا ایک ہی چیز ہے مولی سبحٰنہ وتعالی نے اعضاء کے درمیان فر ق رکھا ہے کہ کسی میں دھونے کا عمل مقرر فرمایا ہے او رکسی میں مسح رکھا ہے ، اگریہ مان لیں کہ بہنا ضروری نہیں تو تمام اعضاء میں مسح ہی کا عمل رہ جائے گا ، اس لئے کہ پانی جب بہے گا نہیں تو صرف یہ ہوگا کہ تری پہنچ گئی اور یہی مسح ہے۔
اقول:تو محقق بحر جیسی شخصیت کو یہ نہ چاہئے تھا کہ اسے مختلف فیہ ٹھہرائیں کہ جاہلوں کو اس کی جسارت ہو ۔“ (فتاوی رضویہ، جلد1(الف) ، صفحہ 287 و 288، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
یہاں سے واضح ہوا کہ اس روایت کا سہارا لے کر مذکورہ نیل پالش پر وضو کو درست قرار دینا بھی غلط اور جہالت ہوگا۔ لہذا یہ تنبیہ کر دی گئی ہے تاکہ کوئی جاہل اس سے استدلال نہ کرے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-0312
تاریخ اجراء: 06 محرم الحرام 7 144 ھ/02 جولائی 2025 ء