میت سے لیا گیا قرض کیا ایک وارث معاف کر سکتا ہے؟

 

میت سے لیا گیا قرض کیا ایک وارث معاف کر سکتا ہے؟

مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر:WAT-3592

تاریخ اجراء:25شعبان المعظم 1446ھ/24فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی نے اپنے چچا سے پچاس ہزار قرض لیے۔چچا کا انتقال ہوگیا ۔ چچا نے کوئی وصیت بھی نہیں کی ۔اب چچی اس قرض کو معاف کرتی ہے،تو کیا اس  چچی کو قرض معاف کرنا چاہیے،حالانکہ چچاکے دیگرورثاء بھی موجودہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت  میں چچا سے لیا گیا قرض اس کی وفات کے بعد  دوسری جائیداد کی طرح، تمام ورثاء کے شرعی حصوں کے مطابق ان   کی ملک ہے،چچی کے لیے جائز نہیں کہ وہ تمام قرض معاف کرے،اورنہ اس کےسارا معاف کرنے سے سارامعاف ہوگا،کیونکہ اس قرض میں  دوسرے ورثاء کا بھی حق ہے اور کسی کی ملک  میں بغیر اس کی اجازت تصرف کرناجائز نہیں  اورنہ بغیراجازت ایساتصرف نافذہوتاہے۔ہاں! چچی  اگراپنی خوشی سے چاہے توفقط اپنے حصے کے قرض کو معاف کرسکتی ہے۔

   مرحوم کا قرض جو کسی شخص کے ذمہ ہوتا ہے وہ اس کی موت کے بعد وراثت بن کر تمام ورثا ء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوتا ہے جیسا کہ مجلہ میں ہے ”کما ان اعیان المتوفی المتروکۃ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصھم کذلک یکون الدین الذی لہ فی ذمۃ شخص مشترکا بینھم علی حسب حصصھم“یعنی: جس طرح مرنے والے کا سامان ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق مشترک ہوتا ہے اسی طرح میت کا وہ قرضہ جو کسی شخص کے ذمہ تھا وہ بھی ان ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق مشترک ہوگا۔ (شرح مجلہ، جلد4، صفحہ31، المادۃ1092، مطبوعہ کوئٹہ)

   خاتم المحققین،امام اجل، علامہ ابن عابدین شامی رحمۃاللہ علیہ (سالِ وفات: 1252ھ) فرماتے ہیں :” فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم “یعنی: اگر (مقروض)قرض دینے والے کے ورثاء کو جانتا ہو تو قرض انہیں دینا لازم ہے کیونکہ قرض اب ان کا حق بن چکا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب اللقطۃ،ج 4،ص 283،دار الفکر،بیروت)

   غیر کی ملک میں تصرف جائز نہیں ،جیساکہ امام علاءالدین ابو بکر بن سعود  الکاسانی الحنفی رحمۃاللہ علیہ (سالِ وفات :587ھ)  فرماتے ہیں:” لا یجوز التصرف فی ملک الغیر بغیر إذنہ  “ یعنی: غیرکی ملک میں اُ س کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا،جائز نہیں ہے ۔(بدائع الصنائع ،کتاب النکاح،فصل بیان شرائط الجواز والنفاذ،جلد2،صفحہ234،مطبوعہ بیروت)  

   "بدائع الصنائع" میں ہے کہ "وإذا کان الدین حقا للغیر فلا یسقط إلا بإسقاط من لہ الحق أو بوجود ما یقوم مقامہ شرعا" ترجمہ: جب قرض کسی دوسرے کا حق ہو تو وہ صرف اسی کے معاف کرنے سے ساقط ہوگا یا ایسی صورت میں جو شرعی طور پر اس کے قائم مقام ہو۔(بدائع الصنائع ، جلد 6 ، ص 12 ، مطبوعہ :بیروت )

   "المبسوط "میں ہے کہ "وإن قال لرجل أبرأتک عن دین فلان علیک لم یبرأ لأنہ إبراء من غیر مالک الحق فلا یصح کما لو أبرأ الأجنبي عن مال غیرہ" ترجمہ: اگر کوئی  شخص دوسرے سے کہے کہ میں نے تمہیں فلاں شخص کا قرض معاف کر دیا، تو وہ مقروض بری نہیں ہوگا، کیونکہ یہ حق کے مالک کے بغیر معافی دینا ہے، جو درست نہیں، جیسے کوئی  شخص کسی دوسرے کے مال کو از خود معاف نہیں کر سکتا۔"(المبسوط ، جلد 14 ، ص 59 ، مطبوعہ بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم