شوہر کی ناراضی میں وفات ہو تو کیا بیوی کو وراثت ملے گی؟

شوہر ناراضی کی حالت میں فوت ہوجائے تو بیوی کووراثت ملے گی یا نہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس بارے میں کہ بیوی شوہر کی بات نہیں مانتی تھی، شوہر کی نافرمانی کرتی تھی جس کی وجہ سے شوہر بیوی سے ناراض تھا اور شوہر کا اِسی حالت میں انتقال ہوگیا، پوچھنا یہ تھا کہ اگر شوہر بیوی سے ناراض ہو اور اِسی حالت میں انتقال کرجائے، تو کیا بیوی کو شوہر کی واثت سے حصہ ملے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بلاوجہِ شرعی شوہر کی بات نہ ماننا، شوہر کی نافرمانی کرنا جس کی وجہ سے شوہر ناراض ہو، یہ سخت ناجائزو حرام اور جہنم میں لے جانےوالا کام ہے، جس نے ایسا کیا ہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ فوراً توبہ کرے، اللہ و رسول سے معافی مانگے، شوہر کے انتقال ہو جانے کی صورت میں اس کےلیے استغفار اور کثرت سے ایصال ثواب کرے۔

البتہ! محض شوہر کا ناراض ہوکر فوت ہونا، یہ عورت کے وراثت سے محروم ہونے کا سبب نہیں ہے، لہذا محض ناراض ہونے سے عورت وراثت سے محروم نہیں ہوئی کہ شوہرکی ناراضی کے باوجود بوقت وفات وہ اس کی زوجہ تھی اور زوجہ کو شوہر  کی وراثت سے حصہ ملنے کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ (البتہ! اگر کوئی اور معاملہ ہو تو اس کی تفصیل بتاکر پھر اس کے متعلق فتوی لیا جاسکتا ہے۔)

صحیح ابن خزیمہ میں ہے

عن جابر بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ثلاثة لا يقبل اللہ لهم صلاة و لا يصعد لهم حسنة:۔۔۔ و المرأة الساخط عليها زوجها حتى يرضى

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں جن کی نماز اللہ تعالی قبول نہیں فرماتا اور ان کی کوئی نیکی اللہ پاک کی بارگاہ میں نہیں لے جائی جاتی (ان میں سے ایک) وہ عورت کہ جس کا شوہر اس سے ناراض ہو یہاں تک کہ راضی ہو جائے۔ (صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث 940، جلد 2، صفحہ 69، المكتب الإسلامي)

فیض القدیر میں اس حدیث پاک کے جملے

و المرأة الساخط عليها زوجها

 کے تحت ہے

لموجب شرعي

یعنی: کسی موجبِ شرعی کی بنا پر شوہر بیوی سے ناراض ہو۔ (فیض القدیر، جلد 3، صفحہ 329، مطبوعہ: مصر)

سبل السلام للصنعانی میں اسی حدیث پاک کی شرح میں ہے 

و إن كان هذا في سخطه مطلقا، و لو لعدم طاعتها في غير الجماع

ترجمہ: اگرچہ یہ ناراضی مطلقا ہو، اگرچہ جماع کے علاوہ کسی اور معاملے میں نافرمانی کی وجہ سے ہو۔(سبل السلام، جلد 3، صفحہ 210، دار الحديث)

جس کی نافرمانی کی ہو، اس کی وفات کے بعد اس کے لیے دعا و استغفار کافائدہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إن العبد ليموت والداه أو أحدهما و إنه لهما لعاق فلا يزال يدعو لهما، و يستغفر لهما حتى يكتبه اللہ بارا

 کسی شخص کے والدین یا ان میں سے ایک اس حال میں فوت ہو جائیں کہ یہ شخص ان کا نا فرمان ہو، پس وہ شخص وہ ان دونوں کے لیے دعا اور استغفار کرتا رہے یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسے فرمانبردار لکھ دے گا۔ (شعب الایمان، جلد 10، صفحہ299، حدیث 7524، مطبوعہ: ہند)

وراثت کے متعلق اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے

﴿وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ- فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ  تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-﴾

ترجمہ کنز العرفان: اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) (سورۃ النساء، پارہ 04، آیت 11)

وراثت کے اسباب کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے

و يستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب و هو القرابة، و السبب و هو الزوجية، و الولاء

ترجمہ: تین چیزوں میں سے کسی ایک کے پائے جانے کی وجہ سے آدمی وراثت کا مستحق ہوتا ہے: (1)نسب،اور وہ قرابت ہے،(2)سبب،اور وہ زوجیت ہے،(3)ولاء۔ (فتاوی ہندیہ،کتاب الفرائض، ج 6، ص 447،دار الفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4355

تاریخ اجراء: 28 ربیع الآخر 1447ھ / 22 اکتوبر 2025ء