
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک اسلامی بہن کی بیٹی 8 سال 6 ماہ کی ہے اور اسے خون آیا، ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا تو وہ حیض بتا رہے ہیں، جبکہ وہ شرعی رہنمائی چاہتی ہیں۔ برائے کرم رہنمائی فرمایئے کہ اس بچی کے لیے کیا حکم ہوگا؟ حیض یا استحاضہ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سال 6 ماہ کی عمر اسلامی لحاظ سے ہو یا انگریزی لحاظ سے، بہرصورت اس عمرمیں آنے والاخون حیض کا نہیں بلکہ استحاضہ کا شمار ہوگا کیونکہ حیض کے لیے اسلامی لحاظ سے کم ازکم 9 کی سال کی عمر پوری ہونا ضروری ہے، جبکہ 8 سال 6 ماہ کی عمر، اسلامی لحاظ سے پورے 9 سال کی نہیں ہے لہذا اس عمرمیں آنے والا خون حیض نہیں ہوسکتا بلکہ استحاضہ (بیماری) کا ہی ہوگا۔
8 سال 6 ماہ کی عمر اسلامی لحاظ سے ہو تب تو اس کا 9 سال سے کم ہونا بالکل واضح ہے اور اگر انگریزی لحاظ سے 8 سال 6 ماہ کی عمر ہو تو وہ بھی اسلامی لحاظ سے 9 سال پورے نہیں بنتے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اسلامی سال 354 یا 355دن کا ہوتا ہے اور انگریزی سال تقریبا 365 دن کا ہوتا ہے تو یوں اسلامی سال، انگریزی سال سے دس گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے، تو اس اعتبار سے انگریزی 8سال 6ماہ، اسلامی لحاظ سے 8 سال اور تقریبا 9 ماہ بنتے ہیں، پورے 9 سال نہیں بنتے۔
ذخر المتأھلین میں ہے
"الدماء الفاسدۃ المسماۃ بالاستحاضۃ سبعۃ الاول ما تراۃ الصغیرۃ اعنی من لم یتم لہ۔۔ تسع سنین"
ترجمہ: فاسد خون جس کو استحاضہ کہا جاتا ہے ان کی تعداد سات ہے: پہلا وہ ہے جسے نابالغ بچی دیکھتی ہے یعنی وہ بچی کہ جس کی عمرکے نوسال پورے نہ ہوئے ہوں۔ (رسائل ابن عابدین، ذخر المتأھلین مع منھل الواردین، ص 98، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے "کم سے کم نوبرس کی عمر سے حَیض شروع ہو گا۔۔۔ نو برس کی عمر سے پیشتر جو خون آئے اِستحاضہ ہے۔" (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 02، صفحہ 372 ، 373، مکتبۃ المدینہ کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے "آفتاب کا ایک دَور ہے کہ تقریباً ۳۶۵ دن اور پونے چھ گھنٹے میں کہ پاؤ دن کے قریب ہُوا پُورا ہوتا ہے۔ اور عربی شرعی مہینے قمری ہیں کہ ہلال سے شروع اور ۳۰ یا ۲۹ دن میں ختم ہوتے ہیں۔ یہ بارہ ۱۲ مہینے یعنی قمری سال ۳۵۴ یا ۳۵۵ دن کا ہوتا ہے تو شمسی سال سے دس گیارہ دن چھوٹا ہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 349 ،350، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے ”اہل اسلام کے نہ صرف عبادات بلکہ معاملات میں بھی یہی قمری مہینے معتبر ہیں۔۔۔ تو اہل اسلام کو انھیں کا اعتبار چاہئے، شرع مطہرہ کے سب احکام عبادات و معاملات انھیں پر مبنی ہیں۔"(فتاوی رضویہ، ج 19، ص 447 ،448، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3918
تاریخ اجراء: 17 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 14 جون 2025 ء