
مجیب:مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: pin-7493
تاریخ اجراء: 17صفر المظفر1446ھ23اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج تک ہم نے یہی سنا اور پڑھا ہے کہ عورت کے لیے سونے کا زیور پہننا جائز ہے،لیکن ایک حدیث نظر سے گزری ،جس میں یہ لکھا تھا کہ" گلے میں سونے کا ہار پہننے والی عورت کو آگ کا ہار پہنایا جائے گااور سونے کی بالی پہننے والی عورت کو آگ کی بالی پہنائی جائےگی"تو کیا عورت کے لیے گلے اور کان میں سونے کا زیور پہننا منع ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولاً نفسِ مسئلہ ذہن نشین کر لیجئے کہ عورت کے لئے سونے کا زیور پہننا مطلقاً جائز ہے،خواہ گلے میں ہو یا کان وغیرہ میں ،کیونکہ یہ زینت کا ایک ذریعہ ہےاور عورت کا شریعت کے دائرے میں رہ کر زینت حاصل کرنا،جائز اور بعض صورتوں میں ثواب بھی ہے،جیسے بیوی اگر شوہر کے لئے سونا پہنے، تو اسے ثواب ملے گا ،بلکہ عورت کے لئے سونے کا زیور مطلقاً حلال ہونے کی صراحت تو حدیث پاک میں بھی موجود ہے۔
زینت جائز ہونے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے:﴿ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللہِ الَّتِیۡۤ اَخْرَجَ لِعِبَا دِہٖ۔۔الخ﴾ ترجمہ کنز العرفان: تم فرماؤ: اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے؟ (پ8،س الاعراف،آیت 32)
اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حوالہ سے ہے:”آیت میں لفظِ’’زینت‘‘زینت کی تمام اقسام کو شامل ہے،اسی میں لباس اور سونا چاندی بھی داخل ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو شریعت حرام نہ کرے،وہ حلال ہے۔حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے،جبکہ حلت کے لئے کوئی دلیل خاص ضروری نہیں۔“(تفسیرِ صراط الجنان،تحت ھذہ الآیۃ،ج3،ص303،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
عورت کے لئے سونے کا زیور مطلقاً حلال ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الحرير والذهب حرام على ذكور ا متی وحل لاناثهم‘‘ ترجمہ:ریشم اور سونا میری امت کے مَردوں پر حرام اور ان کی عورتوں کے لئے حلال ہے۔ (مسند احمد بن حنبل،ج32،ص276،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)
اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عورتوں کو سونے چاندی کا زیور پہنناجائز ہے۔۔بلکہ عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔۔اور دلہن کو سجانا تو سنت قدیمہ اور بہت احادیث سے ثابت ہے،بلکہ کنواری لڑکیوں کو زیور ولباس سے آراستہ رکھنا، کہ انکی منگنیاں آئیں،یہ بھی سنت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج22،ص126،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اور جہاں تک سوال کا تعلق ہے،تو یہ حدیث مختلف کتبِ احادیث میں موجود ہے،لیکن یہ اوپر بیان کردہ حکم کے منافی نہیں، بلکہ اس کی توجیہات درج ذیل ہیں:
(1)یہ حدیث منسوخ ہے،کہ اولاً عورتوں کو بھی سونا پہننے کی ممانعت تھی،لیکن بعد میں یہ ممانعت اُن احادیث سے منسوخ ہو گئی جن میں عورتوں کے لئے سونا حلال ہونے کی صراحت ہے،جیسا کہ اوپر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث میں ہے۔
(2)یہ وعیداُن عورتوں کے لئے ہے،جو فرضیت کے باوجود سونے کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتیں۔ اس کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی جس میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بازو پہ پہنے سونے کی زکوٰۃ ادا نہ کرنی والی خواتین سے فرمایا: کیا تم پسند کرتی ہو کہ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے جائیں؟عرض کیا:نہیں۔ارشاد فرمایا:پھر ان کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔
(3)یا یہ وعید اُن خواتین کے لئے ہو سکتی ہے،جو اجنبی مَردوں کو دکھانے یا غرور و تکبر اور فخریہ طور پر سونا پہنتی ہیں۔اس کی تائید بھی ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے،جس میں سونا پہن کر اسے ظاہر کرنے کا بھی ذکر ہے۔
سوال میں ذکر کردہ حدیثِ پاک:
حضرت اسماء بنتِ یزید رضی اللہ تعالی عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ ايما امراة تقلدت قلادة من ذهب، قلدت في عنقها مثله من النار يوم القيامة وايما امراة جعلت في اذنها خرصا من ذهب،جعل في اذنها مثله من النار يوم القيامة‘‘ترجمہ:جو عورت سونے کا ہار پہنے گی،تو بروزِ قیامت اس کے گلے میں اسی کی مثل آگ کا ہار ڈالا جائے گا اور جو عورت سونے کی بالی پہنے گی،تو بروزِ قیامت اس کے کان میں اسی کی مثل آگ کی بالی ڈالی جائے گی۔(سننِ ابی داؤد،ج4،ص93،مطبوعہ بیروت)
پہلی اور دوسری توجیہ کے دلائل:
ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’قال الخطابی:هذا يتاول على وجهين، احدهما : انه انما قال ذلك فی الزمان الاول،ثم نسخ وابيح للنساء التحلی بالذهب،وثانيهما:ان هذا الوعيد انما جاء فيمن لا يؤدی زكاة الذهب دون من اداها ‘‘ترجمہ:خطابی نے کہا:یہ حدیث دو وجہ سے مؤوَّل ہے۔ان میں سے ایک یہ کہ یہ حکم شروعِ اسلام میں ارشاد فرمایا،پھر منسوخ ہو گیا اور عورتوں کے لئے سونے کے زیورات کو جائز قرار دے دیا گیا۔اور دوسری یہ کہ بے شک یہ وعید اس کے بارے میں ہے،جو سونے کی زکوٰۃ ادا نہ کرے، نہ کہ اس کے بارے میں جو زکوٰۃ ادا کرے۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج7،ص2806،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’بعض شارحین کہتے ہیں کہ یہ نہی اور ممانعت ابتدا میں تھی،اس کے بعد منسوخ ہو گئی،اس کی ناسخ حضرتِ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا اور ریشم عورتوں کے لئے حلال ہے،بعض نے کہا کہ یہ وعید اس جماعت پر ہے جو ان زیورات کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتی۔‘‘(اشعۃ اللمعات مترجم،ج5،ص621،مطبوعہ لاھور)
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ارشاد فرماتے ہیں:’’یہ حدیث یا تو منسوخ ہے،اسلام میں اولًا سونا پہننا عورتوں کو بھی ممنوع تھا، یہ حدیث اس وقت کی ہے، بعد میں اجازت دی گئی۔یا اس سے وہ سونا مراد ہے جس کی زکوۃ نہ دی جائے گی، اگرچہ زکوۃ چاندی کے زیور پر بھی ہے، مگر اکثر چاندی کا زیور نصاب کو نہیں پہنچتا،آدھ سیر سے زیادہ چاندی کون عورت پہن سکتی ہے؟سونا تو ساڑھے سات تولہ ہو تب بھی زکوۃ لازم ہو جاتی ہے ،اس لیے خصوصیت سے سونے کا ذکر فرمایا گیا۔ ‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص138،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)
مذکورہ وعید زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی خواتین سے متعلق ہے،اس کی تائید حدیثِ پاک سے بھی ہے۔چنانچہ جامع ترمذی کی ایک حدیث میں ہے:’’ان امراتین اتتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفی ایدیھما سواران من زھب،فقال لھما:اتؤدیان زکاتہ؟فقالتا:لا،فقال لھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اتحبان ان یسورکما اللہ بسوارین من نار؟ قالتا:لا، فادیا زکاتہ ‘‘ترجمہ:دو عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے ،پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا:کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟انہوں نے کہا :نہیں ۔ فرمایا: کیا تم یہ پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالی تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ عرض کی: نہیں۔فرمایا:پھر ان کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔(جامع ترمذی، ج1،ص138،مطبوعہ کراچی)
تیسری توجیہ کے دلائل:
تیسری توجیہ کی تائید حدیثِ پاک سے بھی ہوتی ہے،جس میں سونے کو ظاہر کرنے کا ذکر ہے۔چنانچہ شہنشاہِ موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’يا معشر النساء!۔۔ليس منكن امراة تحلى ذهبا تظهره ،الا عذبت به ‘‘ترجمہ:اے عورتوں کے گروہ!تم میں سے جو بھی عورت سونا پہن کر اسے ظاہر کرے گی،تو اسے اس کے سبب عذاب دیا جائے گا۔(سننِ نسائی،ج8،ص157،مطبوعہ مکتب المطبوعات الاسلامیہ،حلب)
"تظهره"کے تحت ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ارشاد فرماتے ہیں:’’ ای للاجانب او تكبرا او افتخارا،وقال الطيبی:اراد بقوله"تظهره"النهی الوارد فی قوله تعالى:﴿وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى ﴾۔۔والتعذيب مرتب على التحلية والاظهار معا‘‘ترجمہ:یعنی اجنبیوں کے سامنے یا تکبر و فخر کے طور پر عورت سونے کو ظاہر کرے۔اور طیبی نے کہا:" تظهره "سے مراد وہ ممانعت ہے،جو اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔اور عذاب دیا جانا زیور پہننے اور اسے ظاہر کرنے ،دونوں پر مرتب ہے(یعنی عورت زیور پہن کر اسے ظاہر کرے گی،تب عذاب ہو گا)۔(مرقاۃ المفاتیح ،ج7،ص2806،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)
اسی حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’اجنبی مردوں پر ظاہر کرے کہ اپنا حسن اور زیور دوسروں کو دکھائے یا فخروغرور کے لیے دکھلاوہ کرے یا غریب عورتوں کو فخریہ دکھا کر انہیں دکھ پہنچائے۔۔عورتیں سونے کا زیور اپنی سہیلیوں کو فخریہ دکھایا کرتی ہیں،انہیں حقیر و ذلیل کرنے کے لیے،وہ یہاں مراد ہے۔ اس فخرواظہار پر عذاب پائے گی، نہ کہ صرف زیور پہننے پر،لہذا حدیث محکم ہے، منسوخ نہیں۔ ‘‘(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص138،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم