
مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3746
تاریخ اجراء: 19 شوال المکرم 1446 ھ/18 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی نے اپنے خاندان والوں کیلئے الگ سے اپنے گھر کے ساتھ ہی قبرستان بنایا ہو اور اس میں صرف ان کے خاندان کے افراد ہی دفن ہوں، تو کیا عورت کیلئے اس قبرستان میں جانا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
شریعت مطہرہ میں عورت کے لیے نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ مبارک کے علاوہ مطلقاً زیارتِ قبور منع ہے، خواہ وہ کوئی مزار ہو، عام قبرستان ہو یا خاندان کے افراد کی ہی قبریں ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی یہ عادت ہے کہ جب اپنے عزیر و اقارب کی قبر پر جاتی ہیں، تو وہاں ان کی طرف سے رونا دھونا کثرت سے پایا جاتا ہے اور اگر کسی ولی اللہ کے مزار پر جائیں، تو تعظیم میں حد سے بڑھنا یا بے ادبی کرنا پایا جاتا ہے، لہٰذا اسی بنا پر شریعت مطہرہ نے عورتوں کو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے مزارِ مبارک کے علاوہ کسی بھی مزار، قبر یا قبرستان میں جانے کی اجازت نہیں دی۔
سنن ترمذی، مسندِ احمد، ابن ماجہ اور جامع الاحادیث میں ہے و اللفظ للاول:
’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لعن زوارات القبور‘‘
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبر کی زیارت کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔(جامع ترمذی، ابوا ب الجنائز، جلد 1، صفحہ 203، مطبوعہ کراچی)
امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ/ 1921 ء) لکھتے ہیں: ’’اصح یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں۔‘‘
مزید فرماتے ہیں: ’’قبور اقرباء پر خصوصاً بحال قُرب عہد ممات تجدید حزن لازم نساء ہے او رمزارات اولیاء پر حاضری میں احدی الشناعتین (دو خرابیوں میں سے ایک) کا اندیشہ یا ترک ادب یا ادب میں افراط ناجائز تو سبیل اطلاق منع ہے و لہذا غنیہ میں کراہت پر جزم فرمایا، البتہ حاضری و خاکبوسی آستان عرش نشان سرکار اعظم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ اعظم المندوبات بلکہ قریب واجبات ہے۔ اس سے نہ روکیں گے اورتعدیل ادب سکھائیں گے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 538 ، 539 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم