عورت کا بچیوں کو سکھانے کے لیے بلند آواز سے نماز پڑھنا

بچیوں کو نماز سکھانے کے لیے عورت نماز میں آواز بلند کر سکتی ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک اسلامی بہن نماز کی ادائیگی کے وقت اپنی چھوٹی بچیوں کو اپنے ساتھ جائے نماز پر کھڑا کرلیتی ہیں اور انہیں نماز سکھانے کی غرض سے اول تا آخر نماز کے تمام اذکار و تلاوت بلند آواز سے پڑھتی ہیں تاکہ بچیاں سیکھ سکیں۔ کسی نے ان کو بتایا کہ سکھانے کی نیت سے اس طرح بلند آواز سے تلاوت و ذکر کرنا ،نماز کو فاسد کردیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سکھانے کی نیت سے بلند آواز سے پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نماز میں کسی کو کچھ سکھانا تبھی مفسدِ نماز ہوتا ہے جب نمازی نماز میں الفاظ و کلمات سے کسی کو کوئی بات، معنی یا مفہوم سمجھائے، اگر چہ وہ الفاظ و کلمات فی نفسہ ذکر الٰہی یا قرآن کی آیات ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ اس صورت میں یہ کلام الناس یعنی گفتگو کرنے کے زمرے میں آجاتا ہے، اور نماز میں گفتگو سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر نماز میں الفاظ و کلمات سے مقصود تلاوت و ذکر ہی ہو،فقط بلند آواز سے مقصود کسی کو کچھ بتانا یا سکھانا ہو، تو یہ الفاظ و کلمات سے کسی کو کچھ سکھانا نہیں بلکہ آواز کی بلندی سے سکھانا یا بتانا ہے، اور محض آواز کی بلندی کلام الناس نہیں، اس لیے اس کے ذریعے کسی کو کچھ بتانا یا سکھانا نماز کو فاسد نہیں کرتا۔

سوال میں بیان کردہ صورت دوسری ہے یعنی نماز فاسد نہیں ہوگی لیکن اگر قراءت و اذکار کو اسلامی بہن اتنی بلند آواز سے پڑھیں جس پر شرعی اعتبار سے جہر کی تعریف صادق آتی ہے، یعنی اتنی بلند آواز کہ اگر وہاں کچھ صفوف تصور کی جائیں تو ان میں ایک پوری صف وہ آواز سن سکے، تو درج ذیل خرابیاں لازم آئیں گی:

(1) سری نماز میں چونکہ آہستہ آواز سے قراءت کرنا واجب ہے، اور سکھانے کی نیت میں جہری قراءت قصداً ہوگی، تو اس صورت میں جان بوجھ کر واجب کا ترک پایا جائے گا۔ جبکہ جہری نماز میں بھی عورت کےلیے سراً قراءت مستحب ہے، اس لیے جہری نماز میں بلند آواز سے قراءت خلاف ِ اولٰی ہوگی۔

(2) قراءت کے علاوہ بقیہ اذکار جیسےثناء، تسبیحاتِ رکوع و سجود، التحیات، درود شریف وغیرہ میں مسنون یہی ہے کہ انہیں آہستہ آواز میں پڑھا جائے، اس لیے نما زکے سبھی اذکار کو بلند آواز سےپڑھنا طریقہ مسنونہ کے خلاف ہوگا۔

لہٰذا نماز میں تلاوت و اذکار، نماز سکھانے کےلیے بھی اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ اگر وہاں کچھ صفوف تصور کی جائیں تو ان میں ایک پوری صف وہ آواز سن سکے، اس سے کم آواز سے پڑھنے میں کہ جائے نماز میں ساتھ کھڑی ہوئیں ایک دو بچیوں تک آواز محدود رہے، حرج نہیں۔

اس تمام تر تفصیل پر ترتیب کے ساتھ کتب فقہہ سے عبارات درج ذیل ہیں:

نماز میں نفس ِتلاوت و اذکار سے مقصود کسی معنی کا افادہ نہ ہو بلکہ محض آواز بلند کرنےسے کسی معنی کا افادہ مقصود ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی، بحر الرائق میں ہے:

أن الإفساد إنما حصل بحصول الحرف لا بمجرد رفع الصوت

نماز کا فساد حرف کے وجود سے ہوتا ہے، محض آواز بلند کرنے سے نہیں۔ (بحر الرائق، ج 1، ص 386، دار الکتاب الاسلامی)

رد المحتار میں ہے:

في المجتبى: لو سبح أو هلل يريد زجرا عن فعل أو أمرا به فسدت عندهما اهـ. قلت: و الظاهر أنه لو لم يسبح و لكن جهر بالقراءة لا تفسد

مجتبی میں ہے: اگر نمازی نے کسی کو کسی فعل سے روکنے یا کسی بات کا حکم دینے کے ارادے سے سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ کہا تو طرفین کے نزدیک نماز فاسد ہوجائے گی:۔ میں کہتا ہوں: اگر وہ تسبیح (وغیرہ )نہ کہے (ان نیتوں سے) فقط بلند آواز سے قراءت کرے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔(در مختار مع رد المحتار، ج 1، ص 621، دار الفکر)

امام اہل سنت سے سوال ہوا: ”کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہاں اکثر لوگ بے پڑھے نماز ظہر و عصر و مغرب و عشاکے فرض تنہا پڑھنے کی حالت میں تکبیرات انتقالیہ بجہر اس غرض سے کہتے ہیں کہ دوسرے نمازی معلوم کرلیں کہ یہ شخص فرض پڑھتاہے اور شریك ہوجائیں اس صورت میں جہر کے ساتھ تکبیرکہنے سے نماز میں فساد ہوتا ہے یانہیں؟ دوسری صورت یہ ہے کہ ایك شخص نمازپڑھ رہاہے دوسرا شخص آیا اور منتظر اس امرکا ہے کہ یہ نمازی بجہرتکبیر کہے تو میں شریك ہوجاؤں، چنانچہ اس نے اس کی اطلاع کی غرض سے تکبیرجہر کے ساتھ کہی اس صورت میں نماز فاسد ہوگی یاصحیح؟ بینوا توجروا۔“

تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا”دونوں صورتوں میں اگرنمازیوں نے اصل تکبیرات انتقال بہ نیت ادائے سنت وذکرالٰہی عزوجل ہی کہیں اور صرف جہربہ نیت اطلاع کیا تونماز میں کچھ فسادنہ آیا۔۔۔ اور شك نہیں کہ واقع ایسا ہی ہوتاہے نہ یہ کہ نفس تکبیرہی سے ذکروغیرہ کچھ مقصودنہ ہو صرف بغرض اطلاع بہ نیت مذکورہ کہی جاتی ہو۔۔۔ تحقیق مقام یہ ہے کہ ان مسائل میں حضرات طرفین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے نزدیك اصل یہ ہے کہ نمازی جس لفظ سے کسی ایسے معنی کا افادہ کرے جو اعمال نماز سے نہیں وہ کلام ہوجاتا اور مفسد نماز قرار پاتا ہے اگرچہ لفظہ فی نفسہٖ ذکر الٰہی یا قرآن ہی ہو اگرچہ اپنے محل ہی میں ہو۔۔۔ اگر اصل لفظ سے کوئی امر بیرونی مقصود نہیں بلکہ صرف رفع صوت بقصد دیگر ہے تو یہاں کوئی لفظ ایسانہ پایا گیا جس سے کسی خارج بات کا قصد کیاگیا ہو اور تنہا رفع صوت کلام نہیں تو مناط فساد متحقق نہ ہوا۔۔۔ بالجملۃ جبکہ لفظ بقصد مفسد نہ ہو تو مجرد رفع صورت سے کسی معنی زائد کاارادہ مفسد نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، ص 269 تا 274، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اگر چہ سکھانے کی نیت سے بلند آواز سے قراءت و اذکار نماز کو فاسد نہ کریں، لیکن اتنی بلند آواز میں پڑھنا جس پر جہر کی وہ تعریف صادق آئے جسے بہار شریعت میں ان الفاظ سے بیان کیا: ”جہر کے یہ معنی ہیں کہ دوسرے لوگ یعنی وہ کہ جو صفِ اول میں ہیں سن سکیں، یہ ادنیٰ درجہ ہے اور اعلیٰ کے لئے کوئی حد مقرر نہیں اور آہستہ یہ کہ خود سن سکے۔ اس طرح پڑھنا کہ فقط دو ايک آدمی جو اس کے قریب ہیں سُن سکیں، جہر نہیں بلکہ آہستہ ہے۔ “(بہارِ شریعت، ج 1، ص 544)

تو در ج ذیل خربیاں لازم آئیں گی:

(1)عورت کا بلند آواز سے قراءت کرنا علی الاطلاق تمام نمازوں میں منع ہے، سری نمازوں میں تو مرد و عورت دونوں پر واجب ہے کہ آہستہ قراءت کریں، لہٰذا اس کے متعلق جو منفرد مرد کا حکم ہے، وہی عورت کا بھی ہوگا، اور منفرد کے لئے سری نمازوں میں سری قراءت واجب ہے، اس حوالے سے رد المحتار میں ہے:

و الإسرار يجب على الإمام و المنفرد فيما يسر فيه و هو صلاة الظهر و العصر و الثالثة من المغرب و الأخريان من العشاء و صلاة الكسوف و الاستسقاء كما في البحر، و لكن وجوب الإسرار على الإمام بالاتفاق، و أما على المنفرد فقال في البحر إنه الأصح و أنه الظاهر من المذهب

سری نمازوں میں امام و منفرد دونوں پر سری قراءت واجب ہے اور وہ ظہر، عصر، مغرب کی تیسری رکعت، عشاء کی آخری دوکعتیں، نماز کسو ف اور نماز استسقاء ہیں جیسا کہ بحر میں ہے، لیکن امام پر سر کا وجوب بالاتفاق ہے، رہا منفرد تو اس کے متعلق بحر میں فرمایا کہ وجوب ہی اصح ہے، اور مذہب کا ظاہر بھی یہی ہے۔ (رد المحتار مع الدر المختار، ج 01، ص 469، دار الفکر)

اور پھر خاص عورت پر بالتصریح وجوبِ سر کے حوالے سے رسائل الارکان میں ہے:

و اما المرأۃ فیجب علیھا الاخفاء فی الصلاۃ

ترجمہ: نماز میں عورت پر آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (رسائل الارکان، ص 208، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

یونہی عورتوں کے لئے جہری نماز میں بھی جہر سے قراءت کی ممانعت ہے اور مستحب یہ ہے کہ آہستہ ہی قراءت کرے، حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

المرأة تخالف الرجل في مسائل منهاولا تجهر في موضع الجهر

عورت نماز کے مسائل کے چند مقامات میں مرد وں سے مختلف حکم رکھتی ہے،ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جہر کے مقامات میں جہر نہیں کرے گی۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص: 259، دار الكتب العلمية)

بحر الرائق کے الفاظ یہ ہیں:

و لا يستحب في حقها الجهر بالقراءة في الصلاة الجهرية

جہری نمازوں میں عورت کے حق میں جہر مستحب نہیں ہے۔ (بحر الرائق، ج 01، ص 339، دار الکتاب الاسلامی)

تو سری نماز میں بلندآواز سے اگر قراءت کی تو وجوب کی جان بوجھ کر خلاف ورزی ہوگی، اور سکھانے کی نیت، قصداً آواز بلند کرنے کی صورت ہے۔ اور جہری نماز میں چونکہ آہستہ پڑھنا مستحب ہے، اس لیے یہ خلافِ اولٰی ہوگا۔

(2) قراءت کے علاوہ ذکر و اذاکار جن میں مسنون طریقہ آہستہ پڑھنا ہے، انہیں بلند آواز سےپڑھنا خلافِ سنت ہوگا،مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

(و یسن الاسرا بہا) بالثناء و ما بعدہ للآثار الورادۃ

ثناء اور اس کے بعد آنے والے اذکار آہستہ پڑھنا سنت ہیں، ان کے متعلق وارد ہونے والے آثار کی وجہ سے۔

اس کے تحت علامہ طحطاوی لکھتے ہیں:

منہا قولہ صلی اللہ علیہ و سلم ”خیر الذکر الخفی“

ان آثار میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے”بہتر ذکر وہ ہے جو آہستہ آواز میں ہو۔“ (طحطاوی علی مراقی الفلاح، ص 262، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0582

تاریخ اجراء: 01 ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 29 مئی 2025ء