عورت کا اکیلے نماز میں بلند آواز سے قراءت کرنا کیسا؟

عورت کا نمازمیں بلندآوازسے قراءت کر نا

دار الافتاء  اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

عورتیں جب گھر میں اکیلے نماز پڑھتی ہیں جیسے روم میں پڑھ رہی ہوتی ہیں، تو کیا اس وقت وہ ہر نماز میں اونچی قراءت کر سکتی ہیں؟ جیسے قراءت کررہی ہیں، تو شک ہوتا ہے کہ صحیح قراءت کی ہے یا نہیں، تو وہ اونچی آواز سے پانچوں نمازیں پڑھ سکتی ہیں تاکہ ان کو صاف صاف سنائی دے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عورت کسی نمازمیں بھی جہر یعنی بلند آواز سے قراءت نہیں کرے گی، یہاں تک کہ اگرسری رکعتوں میں (جن میں امام آہستہ قراءت کرتاہےجیسے ظہر و عصر کی تمام رکعتوں اورعشاء کی پچھلی دو رکعتوں میں اور مغرب کی آخری رکعت میں) جہرکے ساتھ کم ازکم ایک چھوٹی آیت کی مقدار برابر قراءت کی تو اگربھولے سے جہر ہوا تو سجدہ سہو کرے اور قصدا جہر کیا تو نماز دہرائے۔

نوٹ: جہری قراءت سے مراد یہ ہے کہ اتنی بلند آواز سے قراءت کرنا کہ پہلی صف میں موجود افراد سن سکیں۔ ہاں! اتنی آواز میں پڑھا کہ قریب کے ایک دو افراد تک آواز پہنچ گئی، تو اس میں حرج نہیں کہ یہ بھی آہستہ پڑھنے میں آتا ہے، لہٰذا اگر اپنے دلی اطمینان کے لیے کوئی عورت اس قدر آواز سے قراءت کر ے کہ جو قدرِ بلند ہے، لیکن جہری کی تعریف میں نہیں آتی، یا جہر تو ہوا لیکن چھوٹی آیت کی مقدار برابر نہیں بلکہ اس سے کم مثلاایک آدھ کلمہ بلند آواز سے نکل جائے تو اس میں حرج نہیں۔

عورت کے جہری نماز میں جہر کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

و لا تجهر في الجهرية“

ترجمہ: اور عورت جہری نمازوں میں جہر نہیں کرے گی۔(رد المحتار، جلد1، صفحہ 504، دار الفکر، بیروت)

ردالمحتارمیں ہے

"و الإسرار يجب على الإمام و المنفرد فيما يسر فيه و هو صلاة الظهر و العصر و الثالثة من المغرب و الأخريان من العشاء"

ترجمہ: اورآہستہ آوازمیں قراءت کرناواجب ہے امام پراورتنہانمازپڑھنے والے پران رکعتوں میں جن میں آہستہ قراءت کی جاتی ہے اوروہ ظہروعصرکی تمام رکعتیں ہیں اورمغرب کی تیسری اورعشاء کی آخری دورکعتیں ہیں۔ (رد المحتار، ج 01، ص 469، دار الفکر، بیروت)

جہر کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ لکھتےہیں:

”أدنى الجهر أن يسمع غيره و أدنى المخافتة أن يسمع نفسه، و على هذا يعتمد“

ترجمہ:جہر کی ادنی مقدار یہ ہے کہ نمازی کا غیر بھی سن لے اور آہستہ پڑھنے کی ادنی مقدار یہ ہے کہ وہ خود سن لے اور اسی پر اعتماد کیا گیاہے۔ (المحیط البرھانی، جلد 1، صفحہ 311،  دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”جہر کے یہ معنیٰ ہیں کہ دوسرے لوگ یعنی وہ کہ صفِ اوّل میں ہيں سُن سکیں، یہ ادنیٰ درجہ ہے اور اعلیٰ کے ليے کوئی حد مقرر نہیں اور آہستہ یہ کہ خود سُن سکے۔اس طرح پڑھنا کہ فقط دو ايک آدمی جو اس کے قریب ہیں سُن سکیں، جہر نہیں بلکہ آہستہ ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 544، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3801

تاریخ اجراء: 08 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 06 مئی 2025 ء