کیا عورت کے خوشبو لگانے سے غسل فرض ہو جاتا ہے؟

 

کیا عورت کے خوشبو لگانے سے غسل لازم ہو جاتا ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-661

تاریخ اجراء:09 شعبان المعظم1446ھ/10فروری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پڑھی جس میں  لکھا تھا کہ اگر عورت خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے،تو اس پر غسلِ جنابت کی طرح غسل کرنا  لازم ہے،تاکہ اس کی نماز قبول ہو ۔ حوالے کے طور پر یہ حدیث پاک لکھی تھی کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے ایک خوشبو لگی ہوئی عورت گزری ، تو انہوں نے اس سے پوچھا: تم کہاں جا رہی ہو، اے اللہ کی بندی؟اس نے جواب دیا: مسجد جا رہی ہوں۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: کیا تم نے خوشبو لگائی ہے؟عورت نے کہا: ہاں۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے فرمایا: جو بھی عورت خوشبو لگا کر مسجد جانے کے لیے نکلے ، اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا ،جب تک وہ واپس آ کر اسی طرح نہ دھولے ،جیسے جنابت کا غسل کرتی ہے۔(مسند احمد)۔اس ضمن میں چند سوالات ہیں:(۱)کیا واقعی ایسی کوئی حدیث پاک ہے(۲)اگر ہے تو کیا عورت پر خوشبو لگانے  کے سبب غسل کرنا لازم ہوجاتا ہے؟(۳)کیا عورت خوشبو نہیں لگاسکتی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت  خوشبو  لگا سکتی ہےاور اپنے شوہر اور محارم کے سامنےتو جس طرح کی چاہے،تیزیا  ہلکی خوشبو لگائے،کوئی ممانعت نہیں، لیکن جب وہ گھر سے باہر جانے کا ارادہ کرے ،تو اُسے حکم ہے کہ اس  کی خوشبو  ایسی ہو کہ جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک پوشیدہ ہو،تا کہ خوشبو کی مہک اجنبی نامحرموں تک جانے والی نہ  ہوکہ یہمعاذ اللہ عزوجل فتنے اور کئی گناہوں کے دروازوں کے کھولنے کا سبب ہے،احادیث مبارکہ میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ۔سوال میں بیان کردہ  حدیث، حدیثوں کی کتابوں میں موجود ہےاور اس حدیث میں بھی عورت کے  ایسی خوشبو  لگانے  کی  مذمت کو بیان کیا گیا ہے کہ عورت جب  ایسی خوشبو لگاکر نکلے کہ جس کی مہک اجنبی نامحرم مَردوں تک پہنچنے والی ہو،تو اس حالت میں عورت کے  نماز ادا کرنے سے اگرچہ  فرض ادا  ہوجائے گا،لیکن اُسےنماز پر ثواب نہیں ملے گا،جس کو حدیث پاک میں  زجر و توبیخ کے طور پر نماز کے  قبول  نہ ہونے سے تعبیر  کیا گیا ہے ۔

   جہاں تک اس حدیث پاک میں خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنے کی بات ہے،تو  شارحین حدیث  نے اس کی شرح میں ارشاد فرمایا ہے کہ حدیث پاک میں غسل سے مراد  خوشبو کو اپنے جسم سے  اچھی طرح سے دھو کرزائل کرنا ہے اور یہ حکم  بھی  خاص اس صورت میں ہے،جبکہ وہ  خوشبو عورت  کے پورے  بدن پر لگ گئی ہو،ورنہ  اگر جسم کے کسی خاص حصے پر لگی ہو، تو صرف اس مخصوص حصے کو  دھولینا ہی   کافی ہوگا۔یا  پھر   حدیث پاک   میں غسل کا حکم سختی اور اس  فعل کی  مذمت  اور ممانعت میں  مبالغے کے طور پرہے،یعنی عورت کا اس طرح خوشبو لگاکر  گھر سے باہر نکلنا انتہائی نامناسب اور  بُرا فعل ہے کہ  اس سے نامحرم مَردوں کو اپنی طرف مائل کرنا اور اُن کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر کے اُن کی شہوت کو بھڑکانا  ہے، تو  اب عورت کو چاہئے کہ غسل جنابت کی طرح   اپنے   مکمل بدن کو دھوئے تاکہ اگر کہیں وہ خوشبو اس کے جسم سے بھی چمٹ گئی ہو تو اچھی  طرح زائل ہوجائے۔خلاصہ یہ ہے کہ  حدیث پاک میں غسل  سے  مراد  یہ ہے کہ خوشبو لگانے والی  عورت  دھونے یا  دوسرے  کسی بھی طریقے کے ذریعے اپنے آپ سے  خوشبو کے اثر  کو دور کرلے تا کہ اُس کی نماز قبول ہو یعنی اسے  نماز پر ثواب ملے،یہ مراد نہیں کہ خوشبو لگانے سے اس پر غسل فرض ہوجائے گا اور جب تک وہ  غسل نہ کرے گی، تو  اس کی نماز نہیں ہوگی ،بلکہ  اگر  عورت خوشبو لگانے سے  پہلے پاک ہو ،تو وہ خوشبو لگانے کے بعد بھی بدستور پاک ہی رہے گی۔

   عورت جب  گھر سے  باہر جانے کا ارادہ رکھتی ہو، تو اس کی خوشبو وہ ہے، جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک پوشیدہ ہو، چنانچہ سنن نسائی کی حدیث پاک ہے:

   ’’عن أبي هريرة، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:طيب الرجال ما ظهر ريحه، وخفي لونه، وطيب النساء ما ظهر لونه، وخفي ريحه‘‘

   ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ،فرمایا کہ مَردوں کی خوشبو وہ ہے کہ جس کی مہک  ظاہر ہو اور رنگ پوشیدہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے کہ جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک پوشیدہ ہو۔ (سنن نسائی، جلد8، صفحہ151،مطبوعہ حلب)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

   ’’في شرح السنة قال سعد: أراهم حملوا قوله: وطيب النساء على ما إذا أرادت أن تخرج، فأما إذا كانت عند زوجها فلتتطيب بما شاءت‘‘

   ترجمہ:شرح السنہ میں ہے کہ  سعد کہتے ہیں: میرے خیال میں انہوں نے اس قول کو  کہ عورت کی خوشبو(وہ ہے جس کا رنگ ظاہر اور مہک پوشیدہ ہو) کواس صورت پر محمول کیا ہے کہ جب عورت باہر نکلنے کا ارادہ رکھتی ہو،بہرحال جب وہ اپنے شوہر کے پاس ہو، تو وہ جس طرح کی  چاہے خوشبو لگا سکتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد7،صفحہ2823، دار الفكر، بيروت)

   عورت کے مہکنے والی خوشبو  لگاکر باہر نکلنے کی مذمت میں جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے:

   ’’عن النبي صلى اللہ عليه وسلم، قال: كل عين زانية، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا وكذا يعني زانية‘‘

   ترجمہ:رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے،آپ نے ارشاد فرمایا: ہر آنکھ(جو اجنبی عورت کی طرف شہوت سے دیکھے تو وہ ) زانیہ ہے اور عورت جب  خوشبو لگا ئے اور کسی مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔ (جامع ترمذی،جلد4،صفحہ403،رقم الحدیث:2786،دار الغرب الاسلامی،بیروت)

   اس کی شرح میں علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ المفاتیح میں ارشاد فرماتے ہیں:

   ’’(يعني زانية)لأنها قد هيجت شهوة الرجال بعطرها وحملتهم على النظر إليها فقد زنى بعينه، ويحصل لها إثم بأن حملته على النظر إليها وشوشت قلبه، فإذا هي سبب زناه بالعين، فتكون هي أيضا زانية أو كأنها هي زانية، قال ابن الملك: وفيه تشديد ومبالغة في منع النسوة عن خروجهن من بيوتهن إذا تعطرن‘‘

    ترجمہ:یعنی وہ زانیہ ہے کیونکہ اس نے  خوشبو سے مردوں کی شہوت کو بھڑکایا اور انہیں اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کیا، تو اس (مرد)نے آنکھوں کے ذریعے زنا کیا۔ اور اس کا گناہ عورت پر (بھی ) ہوگا کہ اس نے مرد کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کیا اور اس کے دل کو بے چین کیا۔ تو جب وہ عورت (مرد کے لیے) آنکھوں کے ذریعے زنا کا سبب بنی ہے، تو وہ بھی زانیہ ہے یا گویا کہ وہ زانیہ ہے۔ ابن الملک کہتے ہیں: اس میں عورتوں کو خوشبو لگا کر گھر سے نکلنے سے روکنے کے سلسلے میں سختی اور مبالغہ پایا جاتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح،جلد3،صفحہ838،دار الفكر، بيروت)

   عورت ایسی خوشبو لگا کر نکلے کہ جس کی مہک نامحرم مَردوں تک پہنچنے والی ہو تو اس کی نماز قبول نہیں،یہاں تک وہ اس کو دھولے،چنانچہ سنن ابن ماجہ ،سنن کبری للبیہقی،مسند بزار،مسند ابی یعلی،مسند احمد کی حدیث مبارکہ ہے:

   واللفظ للاخر:’’عن مولى ابن أبي رهم، سمعه من أبي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم: استقبل أبو هريرة امرأة متطيبة، فقال: أين تريدين يا أمة الجبار؟ فقالت: المسجد. فقال: وله تطيبت؟ قالت: نعم. قال أبو هريرة: إنه قال:أيما امرأة خرجت من بيتها متطيبة تريد المسجد، لم يقبل الله عز وجل لها صلاة حتى ترجع فتغتسل منه غسلها من الجنابة‘‘

   ترجمہ:مولیٰ بن ابی رہم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک خوشبو لگائی ہوئی عورت سے ملے اور اس سے پوچھا:اے جبار (اللہ) کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ عورت نے جواب دیا:مسجدجا رہی ہوں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تم نے خوشبو لگائی ہے؟ عورت نے کہا: ہاں۔تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا: جو بھی عورت خوشبو لگا کر اپنے گھر سے مسجد کے ارادے سے نکلے، اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ واپس آ کر اس (خوشبو) کو ایسے نہ دھو لے جیسے جنابت (ناپاکی) کا غسل کیا جاتا ہے۔(مسند احمد ،جلد 12،صفحہ 311، رقم الحدیث: 7356،مؤسسة الرسالة،بیروت)

   اس  حدیث کی شرح  حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ میں ہے:

   ’’قوله: ۔۔۔ (حتى تغتسل) أي: تبالغ في إزالة الطيب، ولعل ذلك إذا كان على البدن، وقيل: أمرها بذلك تشديدا عليها وتشنيعا لفعلها وتشبيها له بالزنا وذلك؛ لأنها هيجت بالنظر شهوات الرجال وفتحت أبواب عيونهم التي بمنزله من يريد الزنا فحكم عليها بما يحكم على الزاني من الاغتسال من الجنابة‘‘

   ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( یہاں تک کہ وہ غسل کرلے) یعنی خوشبو کو زائل کرنے میں مبالغہ   کرے۔یہ حکم خاص طور پر اس وقت ہے جب خوشبو بدن پر لگی ہو۔اور کہا گیا ہے کہ اس پر غسل کا حکم دینا اس کے لیے سختی اور اس کے فعل کی مذمت کے طور پر ہے اور اس کو  زنا کے مشابہ قراردینے کی وجہ سے ہے  کہ اُس نے مَردوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر کے ان کی شہوت کو بھڑکایا ہے اور ان کی آنکھوں کے دروازے کھول دیے ہیں کہ  جو زنا کے ارادے کی مانند ہیں۔اس لیے اس پر وہی حکم لگایا گیا ہے جو زنا کرنے والے پر لگایا جاتا ہے یعنی غسل جنابت کرنا ۔(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ ،جلد2،صفحہ483،بیروت)

   شرح المشکوۃ للطیبی میں ہے:

   ’’هذا إذا أصاب الطيب جميع بدنها، وأما إذا أصاب موضعاً مخصوصاً فيغسل الموضع المخصوص فحسب. وأقول: شبه خروجها من بيتها متطيبة مهيجة لشهوات الرجال وفتح باب عيونهم التي هي بمنزلة رائد الزنا. وحكم عليها بما يحل علي الزإني من الاغتسال من الجنابة- مبالغة وتشديداً عليها، ويعضد هذا التأويل الحديث الآتی وتقييده تطيبها بالمسجد مبالغة أيضاً، أي إذا كان حكم المسجد هذا فما بال تطيبها لغيره؟ ‘‘

   ترجمہ:یہ غسل کا حکم اس صورت میں ہے جب خوشبو اس کے پورے بدن کو لگ جائے، لیکن اگر خوشبو صرف ایک خاص جگہ پر لگی ہو تو صرف اس مخصوص جگہ کو دھونا کافی ہوگا۔ اور میں کہتا ہوں: اس کا خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا مردوں کی شہوات کو بھڑکانے اور ان کی نظروں کو کھولنے میں ،زنا  کا پیش خیمہ ہے، تو مبالغے اور اس پر سختی کرنے میں اس پر وہی حکم لگایا گیا ہے جو زنا کرنے والے پر جنابت کے غسل کا  ہوتا ہے۔اور یہ تاویل آگے آنے والی حدیث(جس میں خوشبو لگاکر مجلس سے گزرنے والی عورت کو زانیہ کہا گہا ہے )سے قوی ہوجاتی ہے۔اور مسجد میں خوشبو لگانے سے مقید کرنے میں بھی مبالغہ ہے، یعنی  جب  مسجد کا یہ  حکم ہے، تو پھر دوسری جگہوں پر خوشبو لگا کر جانے کا کیا  حال ہوگا؟ (شرح المشکوۃ للطیبی، جلد4،صفحہ1131،مطبوعہ ریاض)

   تحفۃ الابرار شرح مصابیح السنۃ میں ہے:

   ’’ هذا تشديد ومبالغة في المنع عن ذهابهن إلى المسجد متطيبات فإنه يهيج الرغبات ويفتن الناس.وقوله:" فتغتسل غسلها من الجنابة " أي: مثل غسلها ، والمراد: أن تغسل جميع بدنها ليزول عنها ما عبق من الطيب‘‘

   ترجمہ:یہ عورتوں کے لیے خوشبو لگا کر مسجد جانے کی ممانعت میں سختی اور مبالغہ ہے، کیونکہ اس سے خواہشات بھڑکتی ہیں اور لوگوں کے لیے فتنہ کا باعث بنتی ہیں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( وہ غسل کرے جیسے جنابت کا غسل کرتی ہے) کا مطلب یہ ہے کہ ویسا ہی غسل کرے، یعنی پورے بدن کو دھوئے تاکہ خوشبو کی جو مہک اس سے چمٹ گئی ہو، وہ زائل ہو جائے۔(تحفۃ الابرار شرح مصابیح السنۃ،جلد1،صفحہ333،مطبوعہ کویت)

   فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں ہے:

   ’’(حتى تغتسل) يعني تزيل أثر ريح الطيب بغسل أو غيره أي لأنها لا تثاب على الصلاة ما دامت متطيبة لكنها صحيحة مغنية عن القضاء مسقطة للفرض فعبر عن نفي الثواب بنفي القبول إرعابا وزجرا‘‘

   ترجمہ:(یہاں تک کہ وہ غسل کرلے)یعنی خوشبو کے اثر کو غسل یا کسی دوسرے  طریقے سے دور کرے یعنی اس لئے  کیونکہ جب تک وہ خوشبو لگائے ہوئے ہوگی، اس کی نماز پر ثواب نہیں ملے گا، لیکن  نماز صحیح  ہوگی ،قضا سے بےپرواہ ہوگی اور  فرض کو اس کے ذمے سے ساقط کرنے والی ہوگی ۔ لہٰذا ثواب کے نہ ملنے کو قبول نہ ہونے کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ڈرانے  اور دھمکانے کے لیے۔    (فیض القدیر، جلد3، صفحہ 155،مطبوعہ مصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم