
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا عورت اذان دے سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عورتوں کا اذان کہنا مکروہِ تحریمی ہے، اذان دیں گی تو گنہگار ہوں گی اور ایسی اذان دوبارہ کہی جائے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
و کرہ اذان المراۃ فیعاد ندبا
یعنی: عورت کا اذان کہنا مکروہ ہے اور ( اگر کہی) تو استحباباً اس کا اعادہ کیا جائے گا۔ (فتاوی ہندیہ، جلد 1، صفحہ 54، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
بہار شریعت میں صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”عورتوں کو اذان واقامت کہنا مکروہ تحریمی ہے ، کہیں گی گنہگار ہوں گی اور اعادہ کی جائے گی۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 466، طبع: مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3951
تاریخ اجراء: 26 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 23 جون 2025 ء