Aurat Salatul Tasbeeh ki Imamat Karwaye to Namaz ka Hukum

عورت نے نماز تسبیح کی امامت کروائی، تو نماز کاحکم؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-483

تاریخ اجراء:16 محرم الحرام1446ھ/23 جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی  اسلامی بہن  دن کے وقت دیگر اسلامی بہنوں کے بیچ میں کھڑی ہو کر اُنہیں  صلوۃ  التسبیح کی نماز  پڑھائے، اور  قراءت اور تمام اذکارِ نماز اونچی آواز سے پڑھے، اس نیت سے کہ باقی بہنیں بھی اسے سن کر پڑھ لیں۔ اب پتہ چلا کہ اس طرح عورت امام بن کر   نماز نہیں پڑھا سکتی، تو اب جو نماز پڑھائی ،وہ   نماز ہوئی یا  نہیں اور یہ بھی کہ اگر ہو گئی تو  قراءت اور دیگر اذکار نماز  کو  اونچی آواز میں پڑھنے کی وجہ سے وہ نماز  واجب الاعادہ ہوگی یا  نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا امام بننا اور جماعت کروانا  مطلقاً مکروہِ تحریمی ناجائز وگناہ ہے، چاہےفرض  نماز میں   ہو،یا تراویح و    دیگر نفل نمازوں میں،البتہ  اگر عورت امام بن کرعورتوں کو نماز پڑھالے،تو نماز بہرحال ادا ہوجائے گی، کیونکہ عورتوں کے امام کے لیے مرد ہونا شرط نہیں، عورت بھی عورتوں کو نماز پڑھائے گی،تو نماز ہوجائے گی، لہٰذااسلامی بہن  کا دیگر اسلامی بہنوں کو    صلوۃ التسبیح  کی امامت کروانا   اگرچہ  شرعاً  جائز نہیں، البتہ صلوۃ التسبیح ادا ہوجائے گی، مگر  واجب الاعادہ ہوگی، کیونکہ دن میں پڑھے جانے والے  نوافل میں امام او رمُنفرد(یعنی  تنہا نماز پڑھنے والے) ہر دو شخصوں  پر آہستہ قراءت  کرنا   واجب  ہے، اور بلند آواز سے پڑھنا،ناجائز و  گناہ ہے، اگرامام  و منفرد میں سے کوئی  دن کے نوافل میں ایک آیت جس سے قراءت کا فرض اداہوجاتا ہے(یعنی جو کم از کم چھ حروف پر مشتمل ہو، اور اس میں دو کلمے ہوں)یا اس کی مقداربھول کر بلندآوازسےتلاوت کرلے، تو سجدہ سہوواجب ہوتا   ہے، اور قصداً یعنی جان بوجھ کر  ایک آیت یا اس کی مقدار بلندآوازسےپڑھ لے، تو جان بوجھ کر واجب ترک کرنے کے سبب  نمازکااعادہ واجب  ہوتا  ہے، لہٰذا جان بوجھ کر   صلوۃ التسبیح میں بلند آواز سے قراءت کرنے  کی وجہ سے  نماز واجب الاعادہ ہوگی، امام بننے والی اسلامی بہن اور دیگر مقتدی اسلامی بہنوں پر اس صلوۃ التسبیح کی نماز کو دوبارہ پڑھنا   شرعاً  واجب ہوگا۔ ہاں اعادے میں  صلوۃ التسبیح کی طرح، تسبیحات پڑھنا  ضروری نہیں ہوگا، بلکہ صرف چار  رکعت واجب الاعادہ کی نیت سے عام نوافل کی طرح سب علیحدہ علیحدہ    پڑھ لیں، توبھی درست ہے۔

   باقی جہاں تک اذکار نماز کو بلند آواز سے پڑھنے کی بات ہے، تو نماز میں دعا، ثناء اور تسبیحات وغیرہ میں اصل یہ ہے کہ ان کو آہستہ آواز سے پڑھا جائے، اور بلند آواز سے پڑھنا خلاف سنت ہے، مگر   اس سے نماز بہرحال درست ادا   ہوجاتی ہے، سجدہ سہو  یا   نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوتا۔

   عورتوں  کی جماعت کے مکروہ تحریمی ہونے سے متعلق ملتقی الابحر اور اس کی شرح  مجمع  الانہر میں ہے:’’(وكذا) يكره (جماعة النساء وحدهن)؛ لأنه يلزمهن إحدى المحظورين إما قيام الإمام وسط الصف، أو تقدمه وهما مكروهان في حقهن كراهة تحريم“ ترجمہ: اور اسی طرح صرف عورتوں کی  جماعت مکروہ ہے، کیونکہ اس میں  دوممنوع کاموں میں سے ایک کا پایا جانا  لازم  آئے گا، وہ یہ کہ  یاتو  امام(بننے والی عورت) کا قیام   صف کے بیچ میں  ہوگا یا  صف سے آگے ہوگا،اور یہ دونوں عورتوں کے حق میں مکروہ تحریمی ہیں۔(ملتقی الابحر مع مجمع الانھر، جلد1،کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، صفحہ108، دار إحياء التراث العربي)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:” و یکرہ امامۃ المرأۃ للنساء فی الصلاۃ کلھا من الفرائض والنوافل‘‘ ترجمہ: عورت کا،عورتوں کی امامت کرنا،فرائض ونوافل تمام نمازوں میں مکروہ ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،باب الامامۃ، صفحہ 94، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   عورت نے امام بن کر عورتوں کو نماز پڑھائی تو نما زبہرحال ادا  ہوجائے گی، کیونکہ عورتوں کے امام کے لیے مرد ہونا شرط نہیں، چنانچہ بہار شریعت میں ہے:’’عورتوں کے امام کے لیے مرد ہونا شرط نہیں، عورت بھی امام ہوسکتی ہے، اگرچہ مکروہ ہے۔‘‘(بھار شریعت، جلد1حصہ3، صفحہ561،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   دن کے نوافل میں امام و منفرد میں سے ہر ایک پر آہستہ قراءت  واجب ہے، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(ویجھر الامام) وجوبا(فی الفجر وأولی العشاءین أداء وقضاء وجمعۃ وعیدین وتراویح ووتر) فی رمضان۔۔۔ (ویسر فی غیرھا كمتنفل بالنهار)فإنه يسر‘‘ملتقطاًترجمہ:امام وجوبی طور پر  فجر اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں  میں،جہر کے ساتھ قراءت کرے گا، چاہے یہ نمازیں ادا  ہوں یا قضا۔ یونہی جمعہ، عیدین، تراویح اور رمضان کی وتر میں بھی جہر کرے گا۔اور اس کے علاوہ نمازوں میں آہستہ قراءت کرے گا، جیساکہ دن کے نوافل پڑھنے والاآہستہ آوازمیں پڑھے گا۔(تنویر الابصار مع در مختار،جلد2،صفحہ306،305، دار المعرفہ، بیروت)

   بحرالرائق میں ہے :”المتنفل بالنهار يجب عليه الاخفاء مطلقا“ ترجمہ: دن میں نوافل پڑھنے والے پر مطلقاً آہستہ قراءت کرنا واجب ہے۔(بحر الرائق، جلد1،صفحہ355، دارالكتاب الاسلامي،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’دن کے نفل میں اِخفا واجب ہے،حدیث میں ہے:’’صلوۃ النھار عجماء‘‘ترجمہ:دن کی نماز میں قراءت آہستہ ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ444، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   سری نماز میں جہر کے ساتھ   قراءت کرنے  سے   متعلق  فتاوی عالمگیری میں ہے:”لو جھر فیما یخافت أو خافت فیما یجھر وجب علیہ سجود السھو واختلفوا فی مقدار مایجب بہ السھو منھما قیل یعتبر فی الفصلین بقدر ماتجوز بہ الصلاۃ وھوالاصح“ ترجمہ: اگرامام نے سری نماز میں جہری قراءت کی یا جہری نماز میں سری قراءت کی تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔ پھرفقہاء کا اس مقدار کے متعلق اختلاف ہے جس سے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے۔ کہاگیا ہے کہ دونوں صورتوں میں بقدر جواز نماز معتبر ہے اور یہی اصح ہے۔(الفتاوی الھندیہ، جلد1، الباب الثاني عشر في سجود السهوصفحہ128، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   امام و منفر دمیں سے  کسی  نے قصداً   سری نماز  میں بلند آواز سے کم از کم ایک آیت پڑھی، تو اعادہ واجب ہوگا،چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں  فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”اگر امام اُن رکعتوں میں جن میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔۔۔  اتنا قرآن عظیم جس سے فرض قراءت ادا ہو سکے(اوروُہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مذہب میں ایک آیت ہے) بھول کر بآواز پڑھ جائے گا، تو بلاشبہ سجدہ سہو واجب ہوگا، اگر بلا عذرِشرعی سجدہ نہ کیا، یا اس قدر قصداً بآواز پڑھا تو نماز کا پھیرنا واجب ہے۔۔۔۔ بحرالرائق و عالمگیری میں ہے:’’لا یجب السجود فی العمد و انما یجب الاعادۃ جبرا لنقصانہ‘‘ (یعنی عمداً(ترک واجب سے) سجدہ سہو واجب نہیں ، سجدہ سہو تو کمی کو ختم کرنے کے لئے  واجب ہوتا ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد6، صفحہ252،251، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صلوۃ التسبیح کے اعادے میں تسبیحات کا اعادہ ضروری نہیں، جیسا کہ جب   تراویح واجب الاعادہ ہوجائے، توتراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کا اعادہ لازم نہیں ہوتا، بلکہ  عام نفل کی طرح صرف   دو رکعت پڑھنا  کافی ہوتا، چنانچہ  سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’(صورت مسئولہ میں تراویح کی) نمازمکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی۔۔۔ مگراعادہ تراویح سے اعادہ قرآن لازم نہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ481، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اذکار نماز کو آہستہ آواز میں پڑھنا سنت ہے،چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’(سننها)۔۔۔والثناء، والتعوذ، والتسمية، والتأمين سرا‘‘ترجمہ:نماز کی سنتیں۔۔۔توثنا،تعوذ، تسمیہ، اور آمین کو آہستہ آواز میں پڑھنا(بھی سنت  ہے)۔(الفتاوی  الھندیہ،جلد1،صفحہ80،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   اذکار نماز کو بلند آواز سے پڑھا   تو نماز ہوجائے گی، سجدہ سہو یا اعادہ واجب نہیں، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: ’’قد صرحوا بأنه إذا جهر سهوا بشيء من الأدعية والأثنية ولو تشهدا فإنه لا يجب عليه السجود‘‘ ترجمہ: فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ جب کوئی بھول کر دعا، ثنا میں سے کسی کو،خواہ تشہد کو بلند آواز سے پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد2،صفحہ358،دار المعرفہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم