عورتوں کے لیے روزے سے متعلق اہم مسئلہ

 

عورتوں کے لیے روزے سے متعلق اہم مسئلہ

مجیب:مفتی ا بو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Har-6236

تاریخ اجراء: 13شعبان المعظم1446 ھ/12فروری   2025

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی عورت کے حیض کی عادت چھ دن ہو، لیکن پانچویں دن اُسے خون آنا بند ہوجائے۔ اب اگر پانی پر قدرت حاصل نہ ہونے کی صورت میں اُس عورت کو صبح صادق سے پہلے پہلے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ وہ تیمم کرکے وقت کے اندر ہی تکبیرِ تحریمہ کہہ سکے، تو کیا اس صورت میں اُس عورت پر اُس دن کا روزہ فرض ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر حیض تین دن سے زائد مگر عادت سے کم دن میں رُک جائے اور صبح صادق سے پہلے عورت کو اتنا وقت مل جائے کہ وہ غسل کرکے وقت کے اندر فقط تکبیر تحریمہ کہہ لے یا پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرکے وقت کے اندر نماز بھی ادا کر لے،تو ان صورتوں  میں اُس دن کے رمضان کا روزہ رکھنا عورت پر فرض ہوجاتا ہے،لہذا  پوچھی گئی صورت میں اگر عورت کو تیمم کے  بعد وقت میں صرف فرض  پڑھنے کا وقت مل گیا ،تو اس  دن کا روزہ رکھنا فرض ہوگا، اوراگر اتنا موقع نہ مل سکے، تو اس دن کا روزہ  رکھنا عورت پر فرض نہیں ہوگا، البتہ یہ یاد رہے کہ ایسی کیفیت میں بھی عورت پر لازم ہوگا کہ روزہ دار کی طرح دن گزارے ، ایسی عورت کو دن میں کھانا پینا حرام ہوگا۔

   چنانچہ ’’منہل الواردین ‘‘میں ہے:”(و اما اذا انقطع قبلھا )ای قبل العادۃ و فوق الثلاث (فھی فی حق الصلاۃ و الصوم کذلک)حتی لو انقطع و قد بقی من وقت الصلاۃ او لیلۃ الصوم قدر ما یسع الغسل و التحریمۃ وجبا و الا فلا“یعنی اگر حیض عادت سے پہلے تین دن کے بعد منقطع ہوجائے، تو نماز اور روزے کے حق میں عورت کے لیے وہی حکم ہے، جو بیان ہوا، یہاں تک کہ اگر خون منقطع ہوا اور نماز کے وقت میں یا صبح صادق شروع ہونے میں اتنا وقت باقی تھا کہ عورت غسل کرکے تکبیرِ تحریمہ وقت کے اندر کہہ لیتی، تو اس صورت میں نماز اور روزہ،  دونوں اس پر واجب ہو جائیں گے، ورنہ نہیں۔  (منھل الواردین،  رسالۃ من رسائل ابن عابدین، ج 01،ص 167، اسطنبول)

   پانی  سےعاجز آنے کی صورت میں تیمم کا اعتبار ہوگا۔ جیسا کہ خاتم المحققین علامہ شامی علیہ الرحمۃ متوفی (1252ھ) ارشاد فرماتے ہیں:”( حتى تغتسل أو تتيمم بشرطه) هو فقد الماء والصلاة به على صحيح كما يعلم من النهر وغيره، وبهذا ظهر أن المراد التيمم الكامل المبيح للصلاة مع الصلاة به أيضا، ولعل وجه شرطهم الصلاة به هو أن من شروط التيمم عدم الحيض، فإذا صلت به وحكم الشرع بصحة صلاتها يكون حكما بصحة تيممها وبأنها تخرج به من الحيض“ترجمہ: ”یہاں تک کہ عورت غسل کرلے یا شرط پائے جانے کی صورت میں تیمم کرلے اور تیمم لازم ہونے کی شرط پانی نہ ہونا اور صحیح قول کے مطابق  اس تیمم کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے، جیسا کہ یہ بات نہر وغیرہ کتبِ فقہیہ سے جانی گئی ہے۔ اسی سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہاں مراد کامل تیمم ہے کہ جس کے ساتھ نماز بھی ادا کر لی جائے ۔ فقہائے کرام کا تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے  کی شرط لگانا شاید اس وجہ سے ہے کہ تیمم  صحیح ہونے کی ایک شرط حیض نہ ہونا بھی ہے ۔ جب عورت تیمم کے ساتھ نماز پڑھ لے گی اور شریعت اس کی نماز درست ہو جانے کا حکم لگائے گی ،تو یہی حکم اس عورت کا تیمم درست ہونے میں شمار ہوگا اور اس نماز ادا کرنے سے عورت حیض سے باہر نکل جائے گی۔(رد المحتار مع الدر المختار، باب الحیض، ج 01، ص 294، مطبوعہ بیروت،ملتقطا)

   باقی دن روزہ دار کی طرح گزارنے سے متعلق ’’فتح القدیر ‘‘میں ہے:” كل من تحقق بصفة أثناء النهار أو قارن ابتداء وجودها طلوع الفجر وتلك الصفة بحيث لو كانت قبله واستمرت معه وجب عليه الصوم فإنه يجب عليه الإمساك تشبها كالحائض والنفساء يطهران بعد الفجر أو معه“ ترجمہ: ہر وہ شخص جو دن میں یا دن کی ابتدا میں طلوع فجر کے وقت روزہ رکھنے کی صفت سے متصف ہو گیا ، یوں کہ اگر وہی حالت پہلے سے ہوتی اور جاری رہتی تو اس پرروزہ رکھنا لازم ہوجاتا تو اس شخص پر روزہ داروں سے مشابہت کی بنا پر کھانے پینے سے  رُکنا واجب ہے جیسے حیض و نفاس والی عورتیں جو فجر کے بعد یا فجر کے وقت میں پاک ہوئی ہوں۔(فتح القدیر ، ج2،ص363،بیروت)

   ’’منحۃ الخالق ‘‘میں ہے:”في الزيلعي وإمداد الفتاح ما يؤيد كلام المؤلف حيث قالا، ولذا لو طهرت قبل الصبح بأقل من وقت يسع الغسل مع التحريمة لا يجب عليها صلاة العشاء ولا يصح صومها ذلك اليوم كأنها أصبحت وهي حائض ولكن عليها الإمساك تشبها وتقضيه“ ترجمہ: تبیین الحقائق اور امداد الفتاح میں وہی کلام ہے جو مؤلف یعنی صاحب بحر کے کلام کی تائید کرتا ہے ،دونوں علما نے فرمایا: اسی بنا پر اگر عورت صبح سے اتنی دیر پہلے پاک ہوئی کہ غسل کے بعد وقت میں تکبیر تحریمہ کہنے کا وقت نہیں ملتا ،تواس پر نماز عشا ادا کرنا واجب نہیں اور اس دن کا روزہ بھی صحیح نہیں ہوگا کیونکہ اس نے صبح اس حال میں کی ہے کہ وہ حائضہ ہے ،لیکن روزہ داروں سے مشابہت اختیار کرتے ہوئے اس پر کھانے پینے سے رکنا اور روزے کی قضا کرنا  لازم ہوگا  ۔ (منحۃالخالق ، ج1، ص215، بیروت)

      فتاویٰ رضویہ میں ہے:” دس۱۰ دن سے کم میں ختم ہوا تو اُس سے صحبت جائز ہونے کےلئے دو۲ باتوں سے ایک  بات ضرور ہے  یا(۱) تو عورت نہالے اور اگر بوجہ مرض  یا پانی نہ ہونے کے تیمم کرنا ہو تو تیمم کرکے نماز بھی پڑھ لے ، خالی تیمم کافی نہیں یا(۲) طہارت نہ کرے تو اتنا ہوکہ اس پر کوئی نمازِفرض فرض ہوجائے یعنی نماز پنجگانہ سے کسی نماز کا وقت گزر جائے جس میں کم سے کم اس نے اتنا وقت پا یا ہو جس میں نہاکر سر سے پاؤں تک ایک  چادر اوڑھ کر تکبیر تحریمہ کہہ سکتی تھی ۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 04، ص 352، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” اگر پورے دس دن پر پاک ہوئی اور اتنا وقت رات کا باقی نہیں کہ ایک بار اﷲ اکبر کہہ لے،تو اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے اور جو کم میں پاک ہوئی اور اتنا وقت ہے کہ صبحِ صادق ہونے سے پہلے نہا کر کپڑے پہن کر اﷲ اکبر کہہ سکتی ہے، تو روزہ فرض ہے۔ اگر نہالے تو بہتر ہے ورنہ بے نہائے نیت کرلے اور صبح کو نہالے اور جو اتنا وقت بھی نہیں تواس دن کا روزہ فرض نہ ہوا، البتہ روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے، کوئی بات ایسی جو روزے کے خلاف ہو مثلاً کھانا، پینا حرام ہے۔ “(بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 381، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نوٹ: یہ جواب صرف اس صورت سے متعلق ہے جس میں عورت کو اس کے بعد مزید خون نہ آئے ۔ اگر اس کے بعد بھی خون آ جاتا ہے تو حسب تفصیل حکم مختلف ہوگا ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم