
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر ایک سے زیادہ عورتیں کسی جگہ پر بغیر جماعت کے اکٹھی ہوکر نماز پڑھ رہی ہوں تو کیا ان کے لیے ایک سترہ کافی ہے یا ہر ایک کو اپنے لیے الگ سترہ رکھنا پڑے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سترے کی لمبائی کم از کم ایک ہاتھ (تقریباً ڈیڑھ فٹ) اور چوڑائی ایک انگلی کے برابر ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی ایسی جگہ نماز پڑھ رہا ہو جہاں گزرنے کا اندیشہ نہ ہو تو سترہ ضروری نہیں، لیکن جہاں گزرنے کا امکان ہو وہاں سترہ رکھنا مستحب ہے۔ اگر کئی عورتیں اکٹھی نماز پڑھ رہی ہوں اور سب کے سامنے سترہ کی مقدار کوئی چیز ایسی ہو جو سب کے لیےہی سُترہ بننے کے قابل ہو جیسے سب کے سامنے دیوار واقع ہو ، تو وہی سب کے لیے سترہ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر آگے پیچھے عورتیں نماز پڑھ رہی ہوں تو اگلی صف والی عورتیں پیچھے والیوں کے لیے سترہ بن جائیں گی۔ البتہ اگر نہ سامنے کوئی چیز ہو جو سب کے لیے سترہ بن سکتی ہواور نہ ہی ایک عورت دوسری کے لیے سترہ بن رہی ہو، تو اب جس کے سامنے سترہ کی مقدار برابر کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس کے آگے سے گزرنے کے لیے الگ سے سترہ ضروری ہوگا۔
سترے کا لمبائی میں کم از کم ایک ذراع(ڈیڑھ فٹ) اور موٹائی(یا چوڑائی) میں ایک انگلی کے برابر ہونا ضروری ہے، چنانچہ ملتقی الابحر اور اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے:
(و ينبغي) للمصلي (أن يغرز أمامه في الصحراء سترة) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «ليستتر أحدكم و لو بسهم» (طول ذراع و غلظ أصبع) لأن ما دونه لا يبدو للناظر من بعيد فلا يحصل المقصود
ترجمہ: نمازی کو چاہیے کہ صحراء میں اپنے سامنے سترہ گاڑے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ ’’تم میں سے ہر ایک سترہ قائم کرے، اگرچہ تیر کے ساتھ۔‘‘ سترے کی مقدار لمبائی میں ایک ذراع اور موٹائی میں ایک انگلی ہو، کیونکہ جو اس سے کم ہوگا وہ دور سے دیکھنے والے کو ظاہر نہیں ہوگا، لہٰذا اس سے سترے کا مقصود حاصل نہیں ہوگا۔ (ملتقی الابحر مع مجمع الانھر، جلد1، صفحہ122، دار إحياء التراث العربي)
جہاں سے کسی کے گزرنے کا اندیشہ ہو، تووہاں نمازی کو اپنے آگے سترہ رکھنا مستحب ہے، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
(و يغرز) ندبا بدائع (الإمام) و كذا المنفرد (في الصحراء) و نحوها (سترة بقدر ذراع) طولا (و غلظ أصبع)
ترجمہ:امام اور اسی طرح منفرد کے لیے مستحب ہے کہ صحراء اور اس جیسی جگہ میں سترہ استحبابی طور پر گاڑ دے جو ایک ہاتھ کے برابر لمبا اور ایک انگلی کے برابر موٹا ہو۔ اس کے تحت رد المحتار میں ہے:
(قوله و نحوها) أي من كل موضع يخاف فيه المرور. قال في البحر عن الحلية: إنما قيد بالصحراء لأنها المحل الذي يقع فيه المرور غالبا، و إلا فالظاهر كراهة ترك السترة فيما يخاف فيه المرور أي موضع كان
ترجمہ:اور ان کاقول (اس جیسی جگہ میں) یعنی ہر وہ جگہ جہاں کسی کے گزرنے کا اندیشہ ہو۔ بحر میں حلیۃ سے نقل کیا کہ صحراء کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ وہاں عام طور پر گزرنے کا وقوع ہوتا ہے، ورنہ ظاہر یہی ہے کہ جہاں بھی گزرنے کا اندیشہ ہو وہاں سترے کا ترک یعنی(اسے نہ رکھنا) مکروہ (تنزیہی) ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 2، صفحہ 484، دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’امام و منفرد جب صحرا میں یا کسی ایسی جگہ نماز پڑھیں، جہاں سے لوگوں کے گزرنے کا اندیشہ ہو تو مستحب ہے کہ سُترہ گاڑیں‘‘۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 616، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
آگے والی عورتیں بھی پیچھے والیوں کےلیے سترہ بن جائیں گی، چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ’’درخت اور جانور اور آدمی وغیرہ کا بھی سُترہ ہو سکتا ہے‘‘۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 616، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-870
تاریخ اجراء: 05ربیع الاول1446ھ/30 اگست 2025ء