آئی لائنر لگا کر وضو ہوجائیگا؟

آئی لائنر لگے ہونے کی حالت میں وضو کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس بارے میں کہ کیا آئی لائنر لگے ہونے کی صورت میں وضو ہوجائے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

وضو کے لیے یہ شرط ہے کہ جسم کے جن اعضا کو دھونا ضروری ہے (بشمول چہرہ اور آنکھوں کے گرد کی جلد)، ان پر پانی کے کم ازکم دو قطرے بہہ جائیں۔ زیادہ تر آئی لائنر جو خواتین استعمال کرتی ہیں، وہ بہت باریک ہوتے ہیں، جرم دارنہیں ہوتے اور ان کے اوپر سے پانی بہہ جاتا ہے، ایسے آئی لائنر لگے ہوں تو وضو درست ہوگا۔

 اور اگر آئی لائنر ایسا ہے جو پانی کو اس کے نیچے بہنے سے روکتا ہے (جیسے کچھ واٹر پروف یا گاڑھے آئی لائنر)، تو پھر اسے اتار کر اس جگہ پر پانی بہانا ضروری ہو گا، بشرطیکہ اسے اتارنا ممکن ہو۔ اور اگر اتارنا ممکن نہ ہو یا اس میں شدید حرج واقع ہو رہا ہو، تو حرج کی وجہ سے اتارے بغیر وضو و غسل تو ہو جائے گا، لیکن یاد رہے کہ اپنے قصد (ارادے) سے ایسی حالت پیدا کرنا، ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ خود سے ایسی حالت اپنانا جو وضو و غسل اور فرض یا واجب عبادات کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے، گناہ ہے۔

جرم دار آئی لائنر کو اتارنا، ممکن ہو تو وضو و غسل کے لئے اُسے اتارنا ضروری ہوگا، اِس کے متعلق فتح القدیر میں ہے

"و لو لزق بأصل ظفرہ طین یابس و نحوہ أو بقی قدر رأس الإبرۃ من موضع الغسل لم یجز"

 ترجمہ: اگر اس کے ناخن کے اوپر خشک مٹی یا اس کی مثل کوئی اور چیز چپک گئی یا دھونے والی جگہ پر سوئی کے ناکے کے برابر باقی رہ گئی، تو جائز نہیں ہے( یعنی وضوو غسل نہیں ہو گا)۔ (فتح القدیر، جلد1، صفحہ16، مطبوعہ: بیروت)

اگر جرم دار آئی لائنر کے اتارنے میں مشقت و حرج ہو، تو اس کا اتارنا معاف ہوگا، اور اسے اتارے بغیر بھی وضو وغسل ہوجائے گا، اِس کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے "حرج کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو، جیسے آنکھ کے اندر۔ دوم مشقت ہو، جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم بعد علم و اطلاع کوئی ضرر و مشقت تو نہیں، مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے، جیسے مکھی، مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔ قسم اول و دوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع ازالہ مانع ضرورہے، مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا، روشنائی، رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی، تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے، بلکہ چھڑالےکہ آخر ازالہ میں تو کوئی حرج تھا ہی نہیں، تعاہد میں تھا، بعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی۔ " (فتاوی رضویہ، جلد1، صفحہ611، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "رائحہ کریہہ کے ساتھ مسجد میں جانا، جائز نہیں۔ ۔ ۔ تو اگر حقہ سے منہ کی بو متغیر ہو، بے کلی کئے منہ صاف کئے مسجد میں جانے کی اجازت نہیں، اسی قدر سے خود حقہ پر حکم ممانعت نہیں جیسے کچا لہسن، پیاز کھانا کہ بلاشبہ حلال ہے اور اسے کھا کر جب تک بو زائل نہ ہو مسجد میں جانا ممنوع، مگر جو حقہ ایسا کثیف و بے اہتمام ہو کہ معاذ اللہ تغیرِ باقی پیدا کرے کہ وقتِ جماعت تک کلی سے بھی بکلی زائل نہ ہو، تو قربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ ترکِ جماعت و ترکِ سجدہ یا بدبو کے ساتھ دخولِ مسجد کا موجب ہو گا اور یہ دونوں ممنوع و ناجائز ہیں اور ہر مباح فی نفسہ کہ امرِ ممنوع کی طرف مؤدی ہو، ممنوع و ناروا۔ "(فتاوی رضویہ، جلد25، صفحہ94، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4234

تاریخ اجراء: 23ربیع الاول1447 ھ/17ستمبر 2520 ء