کیا فیس ماسک سے چہرے کا پردہ ہوجاتا ہے؟

فیس ماسک سے چہرے کا پردہ

مجیب: ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-3777

تاریخ اجراء: 01 ذیقعدۃ الحرام 1446 ھ/30 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر  عورت فیس ماسک لگائے تو اس کے چہرے کا پردہ ہوجائے گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   عورتوں کو نامحرم مردوں کے سامنے چہرہ چھپانے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ ان کے چہرہ کھولنے میں فتنے کا قوی اندیشہ ہے۔ پھر چہرہ چھپانے کے لیے شرعا کسی خاص طریقے کو اپنانا ضروری نہیں بلکہ کوئی بھی ایسی چادر یا برقعہ وغیرہ جس سے شرعی تقاضے پورے ہو جائیں، وہ شرعی پردہ یا برقعہ ہے۔ لہذا اگر کوئی عورت ایسے ماسک سے نقاب کرے جس سے آنکھوں کے نیچے والا سارا حصہ چھپ جائے اور اوپر والا حصہ چادر وغیرہ سے چھپا لے اوریوں پورا چہرہ چھپ جائے اور ماسک پرکشش نہ ہوتو اس سے نقاب کرنا درست ہو گا، کیونکہ اس سے مقصود حاصل ہو رہا ہے۔

   اوراگرماسک کے باوجودساراچہرہ نہ چھپے توایسی صورت میں چہرے کے پردے کا حصول نہیں ہوگا نیزیہ بھی یاد رہے کہ! اگرفیس ماسک پر کشش ہو کہ دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرے  اور اسے کسی کپڑے وغیرہ سے نہ چھپایا ہو تو ایسے ماسک کا استعمال ممنوع ہے کہ یہ نقاب کرنے کے مقصد ہی کے خلاف ہے کہ اس سے دوسرے اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔

   ردالمحتار میں ہے:

   "تمنع من الكشف لخوف أن يرى الرجال وجهها فتقع الفتنة لأنه مع الكشف قد يقع النظر إليها بشهوة"

   ترجمہ: عورت کو چہرہ کھولنے سے منع کیا جائے گا، اس خوف کی وجہ سے کہ مرد اس کے چہرے کو دیکھیں اور فتنے میں پڑ جائیں۔ کیونکہ چہرہ کھلا ہونے کے ساتھ کبھی اس پر شہوت کے ساتھ نظر پڑ جائے گی۔ (رد المحتار، جلد 1، صفحہ 406، دار الفکر، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے" عورت کا چہرہ اگرچہ عورت نہیں، مگر بوجہ فتنہ غیر محرم کے سامنے منہ کھولنا منع ہے۔" (بہار شریعت، ج 1،حصہ 3، صفحہ 484، مکتبۃ المدینہ)

   وقار الفتاوی میں ہے  "احکام نماز میں جن اعضاء کو چھپانا فرض ہے، اس میں چہرہ داخل نہیں ہے، مگر خوف فتنہ کی وجہ سے قرآن کریم  میں عورتوں کو حکم دیا:

   ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ

   یعنی عورتیں اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔ اصل فتنہ عورتوں کو دیکھنے سے شروع ہوتا ہے۔"(وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 145، بزم وقار الدین، کراچی)

   وقار الفتاوی میں ہے "برقعہ سے مطلوب ستر پوشی ہے، خواہ کسی بھی رنگ کا ہو، اگر اس سے شرعی تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں تو اس کا استعمال ممنوع ہے۔ خود برقعہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اپنی طرف متوجہ کرے۔۔۔ کوئی بھی ایسی چادر یا برقعہ جس سے شرعی تقاضے کے مطابق ستر پوشی ہو جائے، وہ شرعی پردہ یا برقعہ ہے۔" (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 147، 148، بزم وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم