حیض کے بعد پیلے رنگ کی رطوبت کا حکم

حیض کی عادت کے بعد پیلے رنگ کی رطوبت کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0531

تاریخ اجراء: 03 رمضان المبارک 1446 ھ/04 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ مجھے ہر مہینے   مخصوص آٹھ دن حیض آتا تھا  اور ایک عرصے سے یہی روٹین چلی آرہی ہے، لیکن اب پچھلے دو ماہ سے آٹھ دن گزرنے کے بعد اگلے  چار دن تک مسلسل پیلے رنگ کی رطوبت آتی رہتی ہے، یہ پیلے رنگ کی رطوبت بھی کیا حیض ہے؟ ان چار  دنوں کی  نماز کا کیا حکم ہوگا؟ یونہی ابھی رمضان میں اگر پھر ویسے ہی چار دن رطوبت آئے  تو ان دنوں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں  عادت کے جو آٹھ ایام ہیں وہی حیض  کے ایام ہیں اور اگلے چار دن  جوپیلے رنگ کی رطوبت آئی وہ استحاضہ ہے، تو ان چار دنوں کی نمازیں فرض ہوں گی اور  ان دنوں میں روزہ بھی ادا ہوجائے گا۔

   یا د رہے! جب آٹھ دنوں کے بعد پیلے رنگ کی رطوبت  جاری ہو تو فی الحال نمازیں نہ پڑھیں اور نہ ہی روزہ رکھیں  کہ یہ خون ہے اور  حیض کے دنوں میں دس دن  کے اندر جب تک خون جاری ہو نمازو روزہ  حرام ہیں،  ہاں ! جب دس دن  ہوجائیں تو اب غسل کر کے نماز پڑھناشروع کریں اور روزہ بھی رکھیں  اور پچھلے دو دنوں کی نمازیں بھی قضا کرنی ہوں گی۔

   اس لیے کہ آٹھ دن کے بعد جب پیلی رطوبت آئی تو  فی الحال اس کے بارے میں علم نہیں کہ یہ دس دن سے متجاوز ہوگی یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ دس دن سے متجاوز نہ ہو، ایسی صورت میں رطوبت کے ایام حیض کے ایام قرار پائیں گے اور حیض کی عادت کے بدلنے کا حکم ہوگا،  اور یہ بھی ممکن ہے کہ دس دن سے تجاوز کرجائے، ایسی صورت میں عادت کے ایام ہی حیض  کے ایام شمار ہوں گے  اور بقیہ استحاضہ، اور اس کا علم تو دس دن گزرنے کے بعد ہی ہوگا، لہٰذا جب تک دس دن نہیں گزرجاتے چونکہ حیض کا وجود ثابت ہے اور استحاضہ ہونے پر فی الوقت کوئی دلیل نہیں، اس لیے اسے حیض سمجھتے ہوئے نمازیں اور روزہ چھوڑے رکھنے کا حکم ہے۔ ہاں دس دن گزرنے پر جو ظاہر ہو اسی کے مطابق عمل کیاجائےگا۔

   تفصیل مع الدلائل:

   پیلے رنگ کی رطوبت بھی حیض ہو سکتی ہے، بہار شریعت میں ہے: ”حَیض کے چھ رنگ ہیں۔ (۱) سیاہ (۲) سرخ (۳) سبز (۴) زرد (۵) گدلا (۶)  مٹیلا۔ سفید رنگ کی رطوبت حَیض نہیں۔ (بہار شریعت، ج 1، حصہ 2، ص 373، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نیز حیض و نفاس کے احکام میں ہے: ’’بعض اوقات حیض کے شروع میں یا آخر میں جو رطوبت آتی ہے وہ خون کی طرح سرخ رنگ کی نہیں ہوتی بلکہ پیلے، گدلے یامٹیالے وغیرہ رنگ کی ہوتی ہے۔ اس طرح کی رطوبتوں کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ حیض کے دنوں میں خالص سفید رنگ کے علاوہ اگر کسی رنگ کی رطوبت آئے تو وہ حیض کے حکم میں شمار ہوگی۔‘‘ (حیض و نفاس کے احکام، ص 24، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   جب  حیض کے سرخ خون کے  بعد آنے والی پیلے رنگ کی رطوبت بھی حیض کے خون کی طرح  ہی شمار ہوگی تو سوال میں بیان کردہ صورت میں خون بارہ دن جاری رہا اور حیض کا خون جب دس دن سے تجاوز کرجائے تو عادت والی کے لیے عادت کے ایام ہی حیض قرار پاتے ہیں اور بقیہ استحاضہ، تو  عادت کے آٹھ دن حیض اور بقیہ چار دن استحاضہ ہیں، محیط البرھانی میں ہے:

   ”أما إذا زاد على العشرة۔۔۔فی المعتادة أيامها  المعتادة حيض لأنه صار كالدم المتوالي“

   ترجمہ: اگر خون دس دن سے تجاوز کرجائے۔۔۔ تو عادت والی کے عادت کےایام حیض  ہیں کیونکہ یہ لگاتار آنے والے خون کی طرح ہے۔ (المحيط البرهاني، ج 1، ص 218، دار الكتب العلمية، بيروت)

   مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

   ”و أما إذا كان لها عادة و تجاوز عادتها حتى زاد على أكثر الحيض و النفاس فإنها تبقى على عادتها و الزائد استحاضة“

   ترجمہ: اور اگرحائضہ کی عادت معروف ہو اور  خون  عادت سے متجاوز ہوجائے حتی کہ حیض یا  نفاس کے اکثر دنوں سے بھی بڑھ جائے تو وہ عورت اپنی عادت پر باقی رہے گی اور عادت سے زائد خون استحاضہ ہوگا۔(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص141 ، دار الکتب العلمیۃ)

   جب تک خون دس دن سے تجاوز نہ کرےاس کا حیض یا استحاضہ  قرار پانا محتمل ہوتا ہے اور فی الوقت یقینی علم نہیں ہوتا کہ آیا وہ حیض ہے یا استحاضہ، بحر الرائق اور عمدۃ الرعایہ میں ہے،

   و الفظ للعمدۃ: ”انما اشترط کونہ مجاوزاً علی أکثر مدۃ الحیض والنفاس لأنہ اذا زاد علی ایام العادۃ و لم یزد علی أکثر المدۃ لا یحکم بکونہ استحاضۃ لبقاء المدۃ و احتمال تبدل العادۃ فی ھذہ المرۃ و اذا استمر الی أن جاوز أکثر المدۃ علم أن الکل مما زاد علی العادۃ و کان فی المدۃ و ما زاد علیھا کلھا استحاضۃ۔۔۔(قولہ: اثنی عشر یوماً) فان رأت الدم عشرۃ أیام کلہ حیضا“

   ترجمہ: یہ جو شرط قرار دی کہ خون حیض یا نفاس کی اکثر مدت سے تجاوز کرجائے، اس لیے کہ اگر عادت کے ایام سے تجاوز کرے لیکن اکثر مدت سے تجاوز نہ کرے  تو اس کے استحاضہ ہونے کا حکم نہیں لگتا کہ اکثر مدت باقی ہے  اور اس مرتبہ عادت تبدیل ہونےکا احتمال ہے، اور اگر اکثر مدت سے تجاوز کرجائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ عادت سے زائد جو اکثر مدت کے اندر ہے اور جو اس سے زائد ہے، سب استحاضہ ہے۔۔۔ (ان کا  قول: بارہ دن) لہٰذا اگر عادت والی نے  دس دن خون دیکھا تو سب حیض ہے۔ (عمدۃ الرعایۃ شرح الوقایہ، جلد 1، صفحہ 540، دار الکتب العلمیۃ)

   اس احتمال کے باوجود جب تک دس دن نہ ہوجائیں  فی الحال استصحاب ِ حال کی وجہ سے  اسے حیض کا خون ہی سمجھا جائے گا، اصول الشاشی میں ہے:

   ’’و كذلك التمسك (باستصحاب الحال) تمسك بعدم الدليل إذ وجود الشيء لا يوجب بقاءه فيصلح للدفع دون الإلزام۔۔۔ و على هذا قلنا إذا زاد الدم على العشرة في الحيض و للمرأة عادة معروفة ردت إلى أيام عادتها و الزائد استحاضۃ لأن الزائد على العادة اتصل بدم الحيض و بدم الاستحاضة فاحتمل الأمرين جميعا فلو حكمنا بنقض العادة لزمنا العمل بلا دليل۔۔۔ فلو حكمنا بارتفاع الحيض لزمنا العمل بلا دليل بخلاف ما بعد العشرة لقيام الدليل على أن الحيض لا تزيد على العشرة‘‘

   ترجمہ: اسی طرح استصحاب ِ حال سے استدلال عدمِ دلیل سے استدلال ہے  کہ کسی شے کا وجود  اس کے بقا کو لازم نہیں کرتا تو استصحابِ حال دفع کی صلاحیت تو رکھتا ہے پر الزام کی نہیں۔۔۔ اسی بنیاد پر ہم نے کہا کہ جب حیض میں خون دس دن سے تجاو زکرجائے اور عورت کی عادت معروف ہو تو عادت کے ایام ہی اس کے حیض کے ایام ہیں اور اس سے زائد استحاضہ کہ عادت سے زائد حیض و استحاضہ دونوں خون کے ساتھ متصل ہوگیا اور دونوں ہی کا احتمال رکھتا ہے، ایسی صورت میں اگر ہم عادت تبدیل  ہونے کا قول کریں تو یہ عمل بلادلیل ہے۔۔۔ اسی طرح اگر ہم حیض کے ختم ہونے کا حکم دیں تو یہ عمل بلا دلیل ہے،  بخلاف دس دن گزرجانے پر کہ دلیل قائم ہے کہ حیض دس دنوں سے تجاوز نہیں کرتا۔ (اصول الشاشی، ص 389، دار الكتاب العربي، بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم