
مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2021
تاریخ اجراء:04جمادی الاخریٰ1446ھ/07دسمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
حالت حیض میں حدیثِ قدسی پڑھنا کا حکم؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیث قدسی کو پڑھنے چھونے کے اعتبار سے قرآن کریم والا حکم نہیں بلکہ دیگر احادیث والا ہی حکم ہے ۔ لہذا احادیث قدسیہ کو پڑھنے کے لیے با وضو ہونا ، پاک حالت میں ہونا بہتر ہے کہ دینی کتب کا مطالعہ کرنے میں یہی طریقہ با ادب کہلاتا ہے ۔ بے وضو یا جنبی یعنی جس پر غسل فرض ہو ، اس کا حدیث قدسی کو پڑھناجائز ہےالبتہ اس حالت میں پڑھنا ہو تو بھی وضو کر لینا چاہیے ۔ البتہ ان احادیث میں بھی اگر قرآن کریم کی آیات آجائیں تو ان آیات کو پڑھنے یا چھونے کی اجازت نہیں ہو گی۔
علامہ ابن حجر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :”والأحاديث القدسية لا يثبت لها شيء من ذلك، فيجوز مسه، وتلاوته لمن ذكر، وروايته بالمعنى، ولا يجزئ في الصلاة، بل يبطلها، ولا يسمى قرآنا، ولا يعطى قارئه بكل حرف عشرا“یعنی اور احادیثِ قدسیہ کے لیے ان میں سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا، اس کو چھونا جائز ہے اور جس شخص پر حدث (ناپاکی) ہو، اس کے لیے بھی اس کی تلاوت جائز ہے، اور اس کو معنی کے ساتھ روایت کرنا بھی درست ہے۔ نماز میں اس کا پڑھنا کافی نہیں، بلکہ اس سے نماز فاسد ہو جائے گی۔اسے قرآن نہیں کہا جاتا، اور نہ ہی اس کے پڑھنے والے کو ہر حرف پر دس نیکیاں دی جاتی ہیں۔(الفتح المبين بشرح الأربعين،صفحہ 432، مطبوعہ:جدہ)
فتح القدیر ، بحر الرائق ، رد المحتار و دیگر کتبِ فقہ میں ہے،واللفظ للآخر:”يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن لأنها لا تخلو عن آيات القرآن“یعنی (جنبی ،حیض و نفاس والی کو ) فقہ و تفسیر وحدیث کی کتب (بلا حائل )چھونا مکروہِ تنزیہی ہے،کیونکہ یہ آیاتِ قرآنیہ سے خالی نہیں ہوتیں۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، جلد1، صفحہ353، مطبوعہ کوئٹہ)
ہدایہ اور اس کی شرح بنایہ میں ہے:”( كتب الشريعة لأهلها حيث يرخص في مسها بالكم لأن فيه ضرورة) وهذا قول عامة المشايخ وفي " الذخيرة " ويكره لهم مس كتب الفقه والتفسير والسنن لأنها لا تخلو عن آيات من القرآن، ولا بأس بمسها بالكم بلا خلاف‘‘ ترجمہ:دینی کتب پڑھنے ،پڑھانے والوں کے لیے (تفسیر و فقہ و حدیث کی )اسلامی کتب کو (ناپاکی کی حالت میں) آستین کے ساتھ چھونا، جائز ہے،کیونکہ اس میں شرعاً ضرورت متحقق ہے، (علامہ عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں) اور اکثر مشائخ کا یہی قول ہےاور ذخیرہ میں ہےکہ جنبی اور حیض و نفاس والی کو فقہ و تفسیر وحدیث کی کتب (بلا حائل )چھونا مکروہ ہے،کیونکہ یہ آیاتِ قرآنیہ سے خالی نہیں ہوتیں اور ان کو آستین(وغیرہ ) کے ساتھ چھونے میں بلا اختلاف کوئی حرج نہیں۔(البنایۃ شرح الھدایۃ، جلد 1، صفحہ 652، دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”(جنبی اورحیض و نفاس والی عورت ) ان سب کو فقہ و تفسیر وحدیث کی کتابوں کا چھونا مکروہ ہے اور اگر ان کو کسی کپڑے سے چُھوا اگرچہ اس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہو،تو حَرَج نہیں مگر مَوْضَع ِآیت پر ان کتابوں میں بھی ہاتھ رکھنا حرام ہے۔۔۔ درود شریف اور دعاؤں کے پڑھنے میں انھیں حَرَج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وُضو یا کُلی کر کے پڑھیں۔“(بہار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ 327، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم