حیض کی حالت میں بچوں کو نماز سکھانے کا شرعی حکم

حیض کی حالت میں بچوں کو نماز سکھانا

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3647

تاریخ اجراء:09 رمضان المبارک 1446 ھ/ 10 مارچ 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا عورت ماہواری کے دنوں میں  بچوں کو نماز سکھاسکتی ہے جبکہ دل میں ذکر کی نیت ہو یا پھر نہیں سکھا سکتی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز ذکرو دعا اور قرآنی آیات پر مشتمل ہے اور حیض والی عورت  کو ذکرو اذکار اوردعاوثناءکرنے کی  اجازت ہوتی ہے اور اسی طرح جوقرآنی آیات  دعایاثناءپرمشتمل ہوں ان کودعایاثناءکی نیت سے پڑھنے کی بھی اجازت ہوتی ہے تو سورہ فاتحہ کودعااورثناءکی نیت سے بلندآوازسے پڑھ سکتی ہے، اسی طرح سورہ اخلاص میں لفظ " قل" چھوڑکربقیہ کوثناء کی نیت سے بلندآوازسے پڑھ سکتی ہے اورجب معلمہ بلندآوازسے پڑھے توبچے ساتھ دہراتے جائیں، اور اگر دعا و ثناء کی نیت نہ کرے فقط تعلیم مقصود ہو تو اس  صورت  میں سورتوں اور آیات قرآنیہ کا ایک ایک کلمہ   سانس توڑ کر مثلا اس نیت سے   کہ عربی زبان کے الفاظ مفردہ ہیں، پڑھائے جبکہ بقیہ اذکار و اوراد نارمل انداز میں پڑھانے  میں کوئی حرج نہیں ہے۔

   رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے ”لو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء و لم ترد القراءة لا بأس به‘‘ ترجمہ: اگر سورہ فاتحہ کو بطور دعا کے پڑھے یا قرآن کریم کی ان  آیات  کو بطور دعا کے پڑھے کہ  جن میں دعا کا معنی  ہو، اور ان میں قراءت قرآن کا ارادہ نہ کرے تو اس  میں کوئی حرج نہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 1، ص 293، دار الفکر، بیروت)

   فتاوی عالمگیری میں ہے ”و اذا حاضت المعلمۃ فینبغی لھا ان تعلم الصبیان کلمۃ کلمۃ و تقطع بین الکلمتین و لا یکرہ لھا التہجی بالقرآن“ ترجمہ: اورمعلمہ جب حائضہ ہوتو اس کے لئے اجازت  ہے کہ وہ کلمہ کلمہ کر کے پڑھائے، اور  ہر دو کلموں کے درمیان سانس توڑے اور ہجے کرانا مکروہ  نہیں۔ (فتاوی عالمگیری، جلد1 ، صفحہ38 ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہارشریعت میں فرماتے ہیں :”اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرک کے لیے جیسے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یا خبرِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا بہ نیتِ ثنا پوری سورہ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورہ حشر کی پچھلی تین آیتیں ھُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَسے آخر سورۃتک پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن کی نیت نہ ہو توکچھ حَرَج نہیں۔ یوہیں تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیتِ ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظِ قُل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی ہو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے نیت کو کچھ دخل نہیں۔" (بہارِ شریعت، ج 1، حصہ 02، ص 326، مکتبۃ المدینہ)

   مزید فرماتے ہیں: "قرآن مجید کے علاوہ اور تمام اذکار، کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے اور ان چیزوں کو وضو یا کلی کرکے پڑھنا بہتر اور ایسے ہی پڑھ لیا جب بھی حرج نہیں اور ان کے چھونے میں بھی حرج نہیں۔" (بہار شریعت، ج 1، حصہ 02، ص 101، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم