حیض و نفاس میں قرآن مجید کے پاروں اور سورتوں کے نام لینا

عورت کا مخصوص ایام میں قرآن پاک کے پاروں کے نام پڑھنا

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جنبی شخص اور جو عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہو، کیا ان کیلئے قرآنی پاروں کے نام لینا جائز ہے ؟ کیونکہ پاروں کے نام اس پارے کی شروع کی آیات کے ایک یا دو یا تین الفاظ سے مرکب ہوتے ہیں جیسے عم پارہ، پارہ تبارک الذی اور پارہ والمحصنٰت من النساء وغیرہ اور بعض پاروں کا نام حروف مقطعات پر مشتمل ہوتا ہے جیسےپارہ الم۔

اسی طرح ان کیلئے قرآنی سورتوں کے نام لینا جائز ہوگا ؟ جیسے سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران کہ ان میں بھی البقرۃ، آل عمران قرآنی الفاظ ہیں، یونہی حروف مقطعات والی سورتوں کے نام لینا جیسے سورۃ یس، سورۃ طہ وغیرہا۔ برائے مہربانی اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جنبی اورحیض و نفاس والی کے لیے قرآنِ کریم کے الفاظ پر مشتمل پاروں اور سورتوں کے نام لینا جائز ہے، چاہے وہ نام حروفِ مقطعات ہی پر مشتمل کیوں نہ ہوں، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

تفصیلِ مسئلہ یہ ہے کہ جنبی اور حیض و نفاس والی کیلئے قرآن کی قراءت و تلاوت ناجائزہے اِلَّا یہ کہ ضرورت و حاجت متحقق ہو، رہی صورتِ مسئولہ تو وہ قرآن کی قراءت و تلاوت میں سرے سے داخل ہی نہیں ہے، کیونکہ یہاں نہ قرآن پڑھنے کی نیت ہوتی ہے، نہ عرف عام میں اسے کوئی قراءت قرآن کہتا یا سمجھتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ یہ اسماء قرآن کریم میں موجود کسی آیت یا لفظ کی موافقت میں رکھے گئے ہیں، لیکن اس سے مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ یہاں  ان پاروں اور سورتوں کے نام لینا مقصود ہوتا ہے اور یہ بلاشبہ قرآن کی قراءت و تلاوت نہیں بلکہ عام بول چال کا حصہ ہے، جیسے کوئی جنبی شخص کسی سے کہے کہ ”عم پارہ کہاں رکھا ہے“ تو یہ پارے کا نام لینا ہے، تلاوت نہیں، یونہی عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ ”سورہ بقرہ قرآن پاک کی سب سے طویل سورت ہے“ تو یہ سورت کا نام لینا ہے، تلاوت نہیں، لہٰذا  جب یہ قراءت قرآن ہی نہیں ہے  تو جنبی اور حیض و نفاس والی کیلئے یہ جائز ہے۔

اس کی ایک واضح نظیر، یہ ہے کہ حائضہ یا جنبی وغیرہ اشخاص بھی اُن افراد کے نام زبان پر لاتے ہیں جن کے نام قرآنِ کریم میں وارد اسماء کے مطابق رکھے گئے ہوں، اور امت کا تعامل اس پر جاری ہے کہ یہ عمل ناجائز نہیں، وجہ وہی ہے کہ اس میں تلاوت مقصود نہیں ہوتی، بلکہ محض مسمّیات کا ذکر مطلوب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی جنبی شخص گفتگو میں یہ کہے: ”محمد رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں“ تو یہاں وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف نام ِ مبارک لے رہا ہے، بلکہ یہ پورا جملہ ”محمد رسول اللہ“ قرآنِ کریم کی ایک آیت کا حصہ ہے، لیکن چونکہ یہاں مقصد قرآن کی تلاوت نہیں، بلکہ عام گفتگو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اسمِ گرامی لینا ہے، اس لیے یہ تلاوت کے حکم میں داخل نہیں اور جائز ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ  کلام الناس میں اسماء اعلام کے طور پر  جو بعض قرآنی الفاظ مستعمل ہیں، وہ قرآن کے حکم میں سرے سے داخل ہی نہیں ہیں، لہٰذا ان پر قرآن پڑھنے کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

مسئلہ کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:

بلاشبہ جنابت و حیض وغیرہ کی حالت میں قرآن پاک پڑھنےکی اجازت نہیں ہے، لیکن قرآنِ مجید کے وہ بعض الفاظ جو لوگ اپنی روزمرہ بول چال میں استعمال کرتے ہیں اور اس موقع پر قرآن کی تلاوت کا کوئی قصد سرے سے موجود نہیں ہوتا، تو ایسے الفاظ قرآن ہونے سے ہی خارج ہیں، کیونکہ مقدار تحدی پر مشتمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کو خصوصیت قرآنیہ لازم نہیں ہوتی، لہٰذا وہاں تلاوت و قراءت قرآن والے احکام جاری نہیں ہوں گے، بحر الرائق میں میں ایک مسئلہ کے تحت ہے:

”وهذا قرآن حقيقة وحكما لفظا ومعنى وكيف لا وهو معجز يقع به التحدي عند المعارضة والعجز عن الإتيان بمثله مقطوع به وتغيير المشروع في مثله بالقصد المجرد مردود على فاعله بخلاف نحو الحمد لله بنية الثناء؛ لأن الخصوصية القرآنية فيه غير لازمة وإلا لانتفى جواز التلفظ بشيء من الكلمات العربية لاشتمالها على الحروف الواقعة في القرآن وليس الأمر كذلك إجماعا“

ترجمہ: اور یہ (مقدار) حقیقتاً بھی قرآن ہے اور حکماً بھی، لفظ کے اعتبار سے بھی اور معنی کے اعتبار سے بھی۔ بھلا ایسا کیوں نہ ہو، جبکہ یہی وہ قدر معجز ہے جس کے ذریعے مخالفین کو چیلنج کیا گیا ہے، اور اس کے مثل لانے سے لوگوں کا عاجز رہنا قطعی و یقینی ہے اور ایسے کلام میں جو امر شرعاً ثابت ہے اسے اگر کوئی محض نیت سے بدلنا چاہے تو وہ نیت خود رد ہوجائے گی، بخلاف الحمد للہ جیسے الفاظ کا ثنا کی نیت سے کہنا، کیونکہ ان الفاظ میں قرآنی خصوصیت لازم نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ عربی زبان کے کسی بھی لفظ کا تلفظ جائز نہ رہے، کیونکہ ان میں وہی حروف پائے جاتے ہیں جو قرآن میں موجود ہیں، حالانکہ بالاجماع ایسا کوئی حکم نہیں۔ (البحر الرائق، ج01، ص 201، دار الکتاب الاسلامی )

امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی تحقیق بھی یہی ہے، چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ اس موضوع سے متعلق  لکھے ہوئے اپنے  تحقیقی رسالہ ”ارتفاع الحجب عن وجوہ قراءۃ الجنب“ میں فقہائے کرام کی مختلف عبارات کو نقل کرنے کےبعد فرماتے ہیں: ”تحقیق مقام یہ ہے کہ یہاں دوصورتیں ہیں: عدم نیت واعدام نیت۔ عدم نیت یہ کہ بعض الفاظ اتفاقا موافقِ نظمِ قرآن، زبان سے اپنے کلام سے ادا ہوجائیں جیسے صور مذکورہ میں ثم نظر اور ولم یولد کہ ان کے تکلم کے وقت خیال بھی نہیں جاتا کہ یہ الفاظ آیات قرآنیہ ہیں یہاں قرآن عظیم کی طرف قصد سرے سے پایا ہی نہ گیا۔اور اعدام نیت یہ کہ آیات قرآنیہ کی طرف التفات کرے اور بالقصد انہیں نیت قرآن سے پھیر کر غیر قرآن کا ارادہ کرے۔“ (فتاوی رضویہ، ج01، ب، ص 1104تا1111، رضا فاونڈیشن لاھور)

پھر آپ علیہ الرحمۃ آخر میں اپنی تحقیق کا نچوڑ یوں بیان فرماتے ہیں: ”حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ بہ نیت قرآن ایک حرف بھی روا نہیں اور جو الفاظ اپنے کلام میں زبان پر آجائیں اور بے قصد موافقت اتفاقاً کلمات قرآنیہ سے متفق ہوجائیں، زیرِ حکم نہیں اور قرآن عظیم کا خیال کرکے بے نیت قرآن ادا کرنا چاہے تو صرف دو صورتوں میں اجازت ایک یہ کہ آیات دعا و ثنا بہ نیت دعا و ثنا پڑھے دوسرے یہ کہ بحاجتِ تعلیم ایک ایک کلمہ مثلاً اس نیت سے کہ یہ زبان عرب کے الفاظ مفردہ ہیں کہتا جائے اور ہر دو لفظ میں فصل کرے متواتر نہ کہے کہ عبارت منتظم ہوجائے کما نصوا علیہ ان کے سوا کسی صورت میں اجازت نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج01، ب، ص 1113، رضا فاونڈیشن، لاھور)

اور قرآن کریم کے وہ بعض الفاظ جو اشیاء یا اشخاص کے اسماء اعلام بن چکے ہیں اور اسی کے طور پر لوگوں کی زبانوں پر جاری ہیں، وہ بھی قرآن ہونے سے خارج ہیں، کیونکہ و ہاں بھی بوقتِ تکلم قرآن مقصود نہیں ہوتا، بلکہ اُس شخص یا شے کا نام لینا مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اس طرح کے اسماء اعلام کو بھی عدم نیت والی صورت میں داخل فرمایا ہے، کیونکہ اس میں بھی وہی علت (یعنی بوقت تکلم نام مقصود ہونا اور سرے سے قرآن مقصود نہ ہونا) ہے۔

آپ علیہ الرحمۃ اسی رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں: ”یہاں سے صراحۃً ظاہر کہ جواز کیلئے عدم نیت قرآن کافی ہے خاص نیت دُعا یا ثنا ضرور نہیں! یوں ہی اگر نقل حدیث میں کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اس کے جواز میں بھی شبہ نہیں اگرچہ محمد رسول اللہ ضرور قرآن عظیم ہے اور یہاں نام اقدس مقصود نہ کہ دعا وثناء لاجرم بحر سے گزرا ھذا کلہ اذا قرأ علی قصد انہ قرآن یہ سب اس وقت ہے جب بہ نیتِ قرآن پڑھا ہو۔(ت) اسی طرح خلاصہ میں ہے۔ تنویر میں ہے: یحرم قراء ۃ قرآن بقصدہ  قرآن کا کوئی حصہ بہ نیتِ قرآن پڑھنا (اس کے لئے) حرام ہے۔(ت)۔“ (فتاوی رضویہ، ج01، ب، ص 1102، رضا فاونڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0670

تاریخ اجراء: 26جمادی الاولی 1447ھ/18نومبر 2025 ء