
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
خواتین حیض و نفاس میں کیا دلائل الخیرات پڑھ سکتی ہیں؟ نیز اسے چھونے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دلائل الخیرات، شریف درود شریف پر مشتمل مبارک کتاب ہے، اس میں درود پاک کی کثرت اور ساتھ ساتھ چند مقامات پر آیات مبارکہ بھی لکھی ہوئی ہیں۔ حکم شریعت یہ ہے کہ حالتِ حیض و نفاس اور اسی طرح حالت جنابت میں درود پاک، ذکرو اذکار و تسبیحات، اسی طرح کلمہ شریف وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔ البتہ! بہتر یہ ہے کہ ذکر و درود بھی ایسی حالت میں باوضو ہوکر پڑھے، یا کم از کم کلی کر لے۔
جبکہ اس حالت میں قرآن مجید کی آیات مبارکہ کی تلاوت کرنا حرام ہے۔ ہاں! قرآن پاک کی وہ آیات مبارکہ جن میں دعا یا حمد و ثنا کے معنی پائے جاتے ہیں، ان کو حالتِ حیض و نفاس و جنابت میں دعا یا حمد و ثنا کی نیت سے پڑھنا جائز ہوتا ہے جبکہ قرآن کی نیت سے پڑھنا حرام ہے۔ اور جن آیات دعاوثناکے شروع میں لفظ "قل" ہو تو ان کو دعاو ثناکی نیت سے پڑھنے کے لیے لفظ "قل" چھوڑ کر پڑھنا ہوگا۔
نیز آیات ثنامیں اس کا بھی لحاظ ضروری ہے کہ وہاں ثنا غائب یاخطاب کے صیغے کے ساتھ ہو، اگر متکلم کے صیغے کے ساتھ ہو تو اس صورت میں وہ قرآنیت کے لیے متعین ہے لہذا اس کو ثنا کی نیت سے بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اور اسی طرح لہذا کہاں حمد و ثنا کی نیت ہو سکتی ہے اور کہاں نہیں، یہ اس آیت کے کلمات کو دیکھتے ہوئے ہی رہنمائی کی جا سکتی ہے مثلا اس کتاب میں آیت درود
(اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ- یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا)
موجود ہے، اس آیت میں حمد و ثنا کے معنی نہیں پائے جاتے، اس لئے اسے حمد و ثنا کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا، لہذا جب یہ آیت آئے تو اس حالت میں عورت اسے نہیں پڑھ سکتی ہے۔ کچھ مقامات پر دیگر آیات ہیں، جن میں دعا یا حمد و ثنا کی نیت ہو سکتی ہے، جیسے یہ دو آیات
(رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِيمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلاً لِّلَّذِينَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوْفٌ رَّحِيْمٌ)
اور
(رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ)
ہیں۔ ان کو دعا کے طور پر پڑھ سکتی ہے، قرآن کی نیت سے پھر بھی نہیں پڑھ سکتی۔ اور جہاں تک چھونے کا معا ملہ ہے تو حالت حیض و نفاس میں دلائل الخیرات کو (قرآن پاک کی آیات اور ان کے ترجمے والی جگہ کے علاوہ) چھونا جائز ہے، اور چونکہ حالت حیض و نفاس میں قرآن پاک کو بلا حائل چھونا حرام ہے، اس لئے دلائل الخیرات میں جہاں قرآنِ پاک کی آیت، یا ترجمہ لکھا ہو، اس جگہ کو چھونا حرام ہے، نیز جس جگہ آیت یاترجمہ لکھا ہوا ہے، اس صفحے کی پشت پر اسی جگہ کو چھونا بھی جائز نہیں ہے۔ تنویرالابصار مع الدر المختار میں ہے
و لا بأس لحائض وجنب بقراء ۃ أدعیۃ ومسھا وحملھا و ذکر اللہ تعالی و تسبیح
ترجمہ: حائضہ اور جنبی کے لئے دُعاؤں کو پڑھنے، انہیں ہاتھ لگانے اور انہیں اٹھانے میں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں اور تسبیحات پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (الدر المختار، صفحہ 44، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے ”قرآنِ مجید کے علاوہ اَور تمام اذکار کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے اور ان چیزوں کو وُضو یا کُلّی کرکے پڑھنا بہتر اور ویسے ہی پڑھ لیا جب بھی حَرَج نہیں اور ان کے چھونے میں بھی حَرَج نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 02، صفحہ 379، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
در مختار میں ہے
(و) يحرم به (تلاوة قرآن) و لو دون آية المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء۔۔۔ حل
ترجمہ: اور اس (یعنی جنبی وحائضہ) کے لیے قرآن کی نیت سے قرآن پڑھنا حرام ہے، مختار قول کے مطابق اگرچہ ایک آیت سے کم بھی پڑھے۔ اور اگر دعا اور ثنا کی نیت سے پڑھے تو جائز ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 29، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ بہ نیت قرآن ایک حرف بھی روا نہیں۔۔۔ قرآن عظیم کا خیال کرکے بے نیت قرآن ادا کرنا چاہے تو صرف دو صورتوں میں اجازت، ایک یہ کہ آیات دعا وثنا بہ نیت دعا وثنا پڑھے، دوسرے یہ کہ بحاجتِ تعلیم ایک ایک کلمہ مثلاً اس نیت سے کہ یہ زبان عرب کے الفاظ مفردہ ہیں کہتا جائے اور ہر دو لفظ میں فصل کرے متواتر نہ کہے کہ عبارت منتظم ہوجائے کما نصوا علیہ۔۔۔ تمام کتب میں آیات ثنا کو مطلق چھوڑا اور اس میں ایک قید ضروری ہے کہ ضروری یعنی بدیہی ہونے کے سبب علما نے ذکر نہ فرمائی وہ آیات ثنا جن میں رب عزوجل نے بصیغہ متکلم اپنی حمد فرمائی جیسے
وانی لغفار لمن تاب
ان کو بنیت ثنا بھی پڑھنا حرام ہے کہ وہ قرآنیت کے لئے متعین ہیں بندہ انہیں میں انشائے ثنا کی نیت کر سکتا ہے جن میں ثنا بصیغہ غیبت یا خطاب ہے۔ اقول یہاں ایک اور نکتہ ہے بعض آیتیں یا سورتیں ایسی ہی دعا و ثنا ہیں کہ بندہ ان کی انشا کرسکتا ہے بلکہ بندہ کو اسی لئے تعلیم فرمائی گئی ہیں مگر اُن کے آغاز میں لفظ قل ہے جیسے تینوں قل اور کریمہ قل اللّٰھم مٰلک الملکان میں سے یہ لفظ چھوڑ کر پڑھے کہ اگر اس سے امر الٰہی مراد لیتا ہے تو وہ عین قراءت ہے اور اگر یہ تاویل کرے کہ خود اپنے نفس کی طرف خطاب کرکے کہتا ہے قل اس طرح کہہ یوں ثنا ودعا کر، تو یہ امر بدعا وثنا ہوا نہ دعا و ثنا اور شرع سے اجازت اِس کی ثابت ہوئی ہے نہ اُس کی۔۔۔ اقول ہماری اُس تقریر سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ جن آیات میں بندہ دعا وثنا کی نیت نہیں کرسکتا بحال جنابت و حیض انہیں بطور عمل بھی نہیں پڑھ سکتا مثلاً تفریق اعدا کے لئے سورہ تبت نہ کہ سورہ کوثر کہ بوجہ ضمائر متکلمانا اعطیناقرآنیت کے لئے متعین ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 1113، 1114، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے ”کتاب یا اخبار جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اس جگہ کو بلا وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں اسی جگہ ہاتھ لگایا جائے جس طرف آیت لکھی ہے خواہ اس کی پشت پر دونوں ناجائز ہیں باقی ورق کے چھونے میں حرج نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 366، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4130
تاریخ اجراء: 21 صفر المظفر 1447ھ / 16 اگست 2025ء