
مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری
فتوی نمبر:WAT-3502
تاریخ اجراء:27رجب المرجب1446ھ/28جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیاحالتِ حمل میں عصر کی نماز کو مغرب اور عشاء میں پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حالت حمل میں بھی ہرنمازکواس کے وقت میں ہی پڑھنا ضروری ہے، بلاعذر شرعی جان بوجھ کر کوئی نماز قضا کرنا حرام ہے لہذا عصرکی نمازکوبھی عصرکے وقت میں ہی پڑھناضروری ہے، بلا عذر شرعی اس کاوقت گزار کر پڑھنا جائز نہیں اورمحض حمل ہونانمازقضاکرنے کے لیے کوئی عذرشرعی نہیں ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ترجمہ کنز الایمان: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پارہ5، سورہ نساء،آیت103)
مذکورہ آیت کے تحت تفسیرِ خازن میں ہے”والكتاب هنا بمعنى المكتوب يعني مكتوبة موقتة في أوقات محدودة فلا يجوز إخراجها عن أوقاتها على أي حال كان من خوف أو أمن“ ترجمہ: یہاں کتاب بمعنی مکتوب ہے یعنی مقررہ اوقات میں فرض ہیں لہذاان کوان کے وقت کے علاوہ کسی اوروقت میں اداکرناکسی حالت میں بھی جائزنہیں نہ حالت خوف میں اورنہ حالت امن میں۔(تفسیرِ خازن(لباب التأويل في معاني التنزيل)، ج1، ص423، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
درمختارمیں ہے "التأخير بلا عذر كبيرة"ترجمہ:بلاعذرنمازقضاکرناکبیرہ گناہ ہے۔(الدرالمختارمع رد المحتار، کتاب الصلوۃ،باب قضاء الفوائت،ج02،ص62،دارالفکر،بیروت)
فتا وی ہندیہ میں ہے ’’ولا یجمع بین الصلاتین فی وقت واحد لا فی السفر ولا فی الحضر بعذر ما عدا عرفۃ ولمزدلفۃ کذا فی المحیط‘‘ ترجمہ: ایک وقت میں دونمازوں کوجمع نہیں کرسکتا نہ سفرمیں اور نہ حضر میں کسی بھی عذرکی وجہ سے، سوائے عرفہ اورمزدلفہ کے، اسی طرح محیط میں ہے۔(کتاب الصلاۃ،باب فی مواقیت الصلاۃ، ج1، ص52، دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم