دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کوئی عورت حاملہ ہوئی اور اس کے حاملہ ہونے کا ایک مہینہ ہی ہوا اور اسے خون آیا، لیکن بچہ ٹھیک ہے، تو نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟ اور اگر بچہ بھی ضائع ہو جائے، تو کیا حکم ہوگا؟ ایسی صورت میں وہ نمازیں پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر کوئی عورت ایک مہینے کے حمل کے دوران خون دیکھے اور بچہ بھی صحیح سلامت ہو، تو یہ استحاضہ (بیماری کا خون) شمار ہوگا۔ مگر یہ بات عورت خود سے یقین کے ساتھ نہیں جان سکتی کہ بچہ سلامت ہے یا ضائع ہوگیا ہے، لہٰذا اپنے طور پر فیصلہ نہ کیا جائے، بلکہ کسی ماہر ڈاکٹر کے معائنے کے بعد ہی حکم لگایا جائے۔ بہرحال اگر استحاضہ ہونا یقینی ہوجائے، تو چونکہ استحاضہ میں عورت کو نماز معاف نہیں ہوتی، لہٰذا وہ اس حالت میں نماز پڑھے گی، البتہ استحاضہ کا خون بھی ناپاک ہوتا ہے، جسم اور کپڑوں کے جس حصہ پر لگ جائے، اُسے بھی ناپاک کردیتا ہے اور وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا استحاضہ کی صورت میں عورت جسم اور کپڑوں کے اُس حصہ کو جہاں یہ خون لگا ہو، پاک کرنے کے بعد صرف وضو کرکے نماز ادا کرسکتی ہے۔ اگر بچہ ضائع ہوجانے کے سبب خون آئے، تو چونکہ ایک مہینہ یعنی چار ہفتے کے حمل میں کوئی عضو (ہاتھ، پاؤں وغیرہ) نہیں بنتا، اس لیے اس صورت میں آنے والا خون نفاس شمار نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس کو حیض قرار دینا ممکن ہو، یعنی کم از کم پندرہ دن پاک رہنے کے بعد آئے (ایک مہینہ کے حمل میں ایسا ہی ہوگا) اور کم از کم تین دن تک جاری بھی رہے، تو پھر یہ حیض کا خون ہوگا اور اس کے احکام لاگو ہوں گے، ورنہ اگر حیض کی شرطیں پوری نہ ہوں، تو یہ خون بھی استحاضہ ہی شمار ہوگا اور اس کے وہی احکام ہوں گے، جو اوپر بیان ہوئے۔
حمل کے دوران آنے والا خون حیض نہیں، بلکہ استحاضہ کا خون ہوتا ہے، چنانچہ ملتقی الابحر، کنز الدقائق، تنویر الابصار، فتاوی عالمگیری میں ہے:
و اللفظ للاول:’’و ما تراہ الحامل حال الحمل وعند الوضع قبل خروج أکثر الولد استحاضۃ
ترجمہ: حمل والی، حمل کے دوران اور بچے کی پیدائش پر اس کے آدھے سے زیادہ باہر نکلنے سے پہلے جو خون دیکھے، وہ استحاضہ ہے۔ (ملتقی الابحر، جلد 1، کتاب الطھارۃ، صفحہ 82، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
مجمع الانہر، بحر الرائق، ہدایہ اور بدائع الصنائع میں ہے:
و اللفظ للاخر: و دم الحامل لیس بحیض، و ان کان ممتدا عندنا۔۔۔ لنا قول عائشۃ رضی اللہ عنھا :’’الحامل لا تحیض‘‘ و مثل ھذا لا یعرف بالرأی،فالظاھر أنھا قالتہ سماعا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؛ و لأن الحیض إسم للدم الخارج من الرحم، و دم الحامل لایخرج من الرحم، لان اللہ تعالی أجری العادۃ أن المرأۃاذا حبلت ینسد فم الرحم فلا یخرج منہ شئ، فلا یکون حیضا
ترجمہ: حاملہ کو آنے والا خون ہمارے نزدیک حیض نہیں، اگر چہ اس کا نکلنا کئی دنوں تک رہے، ہماری دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا، اور یہ ایک ایسی بات ہے، جو اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، تو ظاہر یہی ہے کہ یہ بات آپ رضی اللہ عنہا نےحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سن کر ہی فرمائی ہوگی، اور (اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ) حیض رحم سے نکلنے والے خون کو کہتے ہیں اور حاملہ کو آنے والا خون رحم سے نہیں نکلتا، کیونکہ اللہ تعالی نے ایک عادت جاری فرمادی ہے کہ عورت جب حاملہ ہوجاتی ہے، تو اس کے رحم کا منہ بند ہوجاتا ہے اور اس میں سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی،لہذا حاملہ کو آنے والا خون ہرگز حیض نہیں۔ (بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 42،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
استحاضہ میں نماز معاف نہیں، چنانچہ ہدایہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
و اللفظ للثانی: ودم الاستحاضۃ۔۔۔ لا یمنع الصلاۃ و لا الصوم و لا الوطئ
ترجمہ: استحاضہ کا خون، نماز، روزہ اورجماع سے منع نہیں کرتا۔ (الفتاوی الھندیہ، جلد 1، صفحہ 44،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’استحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ اور نہ ایسی عورت سے صحبت حرام‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 385، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
استحاضہ کا خون ناپاک ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، چنانچہ محیط برہانی میں ہے:
دم الاستحاضة حدث يوجب الوضوء عندنا۔۔۔ لأنه خارج نجس فيكون حدثاً كالغائط و البول
ترجمہ: استحاضہ کا خون حدث (اصغر) ہے، جو ہمارے نزدیک وضو کو واجب کر دیتا ہے، کیونکہ یہ نکلنے والا خون ناپاک ہوتا ہے، تو یہ حدث ہوگا، جیسے پاخانہ، پیشاب (کہ یہ حدث ہے اور ان کے نکلنے سے وضو واجب ہوتا ہے)۔ (المحیط البرھانی، جلد 1، صفحہ 51- 50،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
حمل ساقط ہونے پر آنے والا خون کب نفاس، حیض اور استحاضہ ہوگا؟ اس کے متعلق تنویر الابصار مع در مختارمیں ہے:
(و سقط ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر۔۔۔ (ولد) حكما (فتصير) المرأة(به نفساء)۔۔۔ فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، و المرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام و إلا استحاضة ملتقطاً۔
ترجمہ: حمل ساقط ہوا اور اس کا کوئی عضو بن چکا تھا، جیسے ہاتھ یا پاؤں یا انگلیاں یا ناخن یا بال، تو اس صورت میں وہ حکماً بچہ کہلائے گا اور عورت آنے والے خون کے ذریعے نفاس والی شمار ہوگی۔۔۔ اور اگر اس حمل کا کوئی عضو ظاہر نہیں ہوا تھا، تو اس صورت میں نفاس کا حکم نہیں ہوگا۔ البتہ اس صورت میں اگر یہ آنے والا خون تین دن تک جاری رہے اور اس سے پہلے پاکی کے پندرہ دن گزر چکے ہوں، تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا، ورنہ پھر استحاضہ کا شمار ہوگا۔ (تنویر الابصار مع در المختار، جلد 1، کتاب الطھارۃ، صفحہ 551 - 549،دار المعرفۃ، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے: ”حمل ساقط ہو گیا اور اس کا کوئی عُضْوْ بن چکا ہے جیسے ہاتھ، پاؤں یا انگلیاں تو یہ خون نِفاس ہے۔ ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے، تو حیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 377، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-890
تاریخ اجراء: 25 ربیع الاول1447ھ/19 ستمبر 2025ء