
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو ماہ کی حاملہ خاتون کو دورانِ حمل چند دن خون جاری رہا، وہ اسے استحاضہ شمار کر کے نمازیں پڑھتی رہی، پھر ڈاکٹر کے کہنے پر دوائیاں کھانے سے یا ہسپتال میں داخل ہو کر (حمل کے اب نارمل ہونے یا کسی بھی وجہ سے)حمل ساقط کروا دیا گیا اور اسقاطِ حمل میں یہ ظاہر ہوا کہ حمل کے ابھی اعضاء نہیں بنے تھے اور اس عورت کو حمل ساقط ہونے کے بعد بھی خون جاری رہا، تو چونکہ اس عورت کو حمل ساقط ہونے سے پہلے بھی اور بعد بھی خون جاری رہا، تو اس پر سوال یہ ہے کہ حمل ساقط ہونے سے پہلے اور بعد والے خون میں سے کون سا خون حیض ہو گا اور کون سا استحاضہ؟ اور اس عورت کی حیض و طہر کی عادت کون سی شمار کی جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کسی عورت کا دو ماہ کا حمل ساقط ہوا اور حمل ساقط ہونے کے بعد ظاہر ہو گیا کہ ابھی اعضاء نہیں بنے تھے، تو اس صورت میں اس عورت کو حمل کے دوران اور حمل کے بعد جو بھی خون آئے گا، اسے حیض کی شرائط پر پرکھا جائے گا، اگر اس میں حیض کی شرائط پائی جائیں کہ وہ طہرِ صحیح کے بعد آیا اور تین دن تک جاری رہا، تو یہ حیض شمار ہو گا، ورنہ استحاضہ ہو گا۔
اس مسئلہ کی مزید تفصیل یہ ہے کہ حمل کے دوران آنے والے خون کے حیض یا استحاضہ ہونے کا درست تعین، در حقیقت وضعِ حمل (بچہ پیدا ہونے یا حمل ضائع ہونے) کے بعد ہی ہوتا ہے اس لئے اگر دو ماہ کا حمل ساقط ہو گیا یا خود ساقط کروایا اور بچے کے اعضاء نہ بنے ہوئے ہوں، تو شرعا یہ حمل تھا ہی نہیں اور اس پر حمل کے احکام بھی لاگو نہیں ہوں گے اور اسقاطِ حمل سے پہلے یا بعد آنے والا خون اگر حیض کی شرائط پر پورا اترتا تھا، تو وہ حیض ہو گا ورنہ استحاضہ ہو گا۔
اور مزید یہ کہ دو ماہ کا حمل ساقط ہونے اور بچے کے اعضاء نہ بنے ہونے کی صورت میں اگر حیض یا طہر کی سابقہ عادت برقرار ہو تو اسی کے مطابق ہی احکام لاگو ہوں گے اور اگر سابقہ عادت برقرار نہ ہو، تو حیض و استحاضہ کے ایام کی تعیین کے لئے ایسی عورت اس ناقص حمل کو کالعدم ہی شمار کرے، یعنی گویا اس کو حمل تھا ہی نہیں اور اس عورت کو احکامات میں اپنے آپ کو غیر حاملہ عورت تصور کرنا ہو گا کہ اگر یہ ناقص حمل نہ ہوتا تو ان ایام میں آنے والا خون کتنے دن حیض اور کتنے دن استحاضہ ہوتا؟ اسی اعتبار سے وہ اس خون کو حیض یا استحاضہ قرار دے گی۔ اور چونکہ ہر عورت کے پاکی و حیض کے ایام مختلف ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے اس پر احکام لاگو ہوتے ہیں، اس لئے یہ مسئلہ ذہن میں رکھ کر (کہ ان دو ماہ میں اگر اسے یہ ناقص حمل نہ ہوتا، تو اس کا کون سا خون حیض اور کون سا استحاضہ ہوتا؟) اس کی صورت کے مطابق حکم شرع کا تعین ہو گا۔
اور چونکہ حیض یا طہر میں عادت کے بدلنے کی بہت سی صورتیں بنتی ہیں، جو عام کتب فقہ میں موجود ہیں وہاں سے اس کا مطالعہ کر لیا جائے اور کسی خاص خاتون کا مسئلہ ہو تو وہ اپنے حیض و طہر کے ایام کی عادت کسی مفتی صاحب کو بیان کر کے اپنی مخصوص صورت کا جواب حاصل کر لے۔
ایسا ناقص حمل کہ جس کے اعضاء نہیں بنے تھے اور وہ ساقط ہو جائے تو اس پر حمل کے احکام لاگو نہیں ہوں گے، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:
”(والسقط ان استبان بعض خلقه كالشعر والظفر فولد ) اى فهو ولد تصير به نفساء وتثبت لها بقية الاحكام من انقضاء العدة ونحوها۔۔۔(والا فلا) يكون ولدا ولا تثبت به هذه الاحكام“
ترجمہ: ساقط ہونے والے حمل کے اگر بعض اعضاءمثلاً بال اور ناخن بن چکے تھے، تو یہ حمل بچہ ہے، عورت اس کی وجہ سے نفاس والی کہلائے گی اور اس کے لئے حمل کے بقیہ احکام مثلاً عدت کا مکمل ہونا وغیرہ بھی ثابت ہوں گے اور اگر اعضاء نہیں بنے تھے، تو یہ حمل بچہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سے یہ احکام (انقضائے عدت و حمل کے دیگر احکام) بھی ثابت نہیں ہوں گے۔ (منھل الواردین من بحار الفیض علی ذخر المتاھلین فی مسائل الحیض، صفحہ 21، مطبع معارف)
حمل ساقط ہونے سے پہلے جو خون آیا اسے حیض کی شرائط پر پَرْکھا جائے گا، چنانچہ محیط برہانی میں ہے:
”وإن رأت دما قبل إسقاط السقط ۔۔۔ فإن لم يكن السقط مستبين الخلق، فما رأته قبل الاسقاط حيض إن أمكن جعله حيضا بأن وافق أيام عادتها أو كان مرئيا عقيب طهر صحيح؛ لأنه تبين أنها لم تكن حاملا“
ترجمہ: اور اگر عورت نےحمل ساقط ہونے سے پہلے (دورانِ حمل) خون دیکھا، تو اگر ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق نہ تھا(یعنی اعضاء ظاہر نہیں ہوئے تھے)، تو اس نے حمل ساقط ہونے سے پہلے جو خون دیکھا تھا، اگر اسے حیض بنانا ممکن ہو کہ وہ عادت کے ایام کے موافق یا طہرِ صحیح کے بعد آیا ہو، تو وہ حیض ہو گا، کیونکہ (بچہ تام الخلق نہ ہونے کی وجہ سے)اب یہ واضح ہو گیا کہ وہ اس وقت حاملہ نہیں تھی۔ (المحیط البرھانی، کتاب الطھارات، الفصل التاسع فی الحیض، جلد 1، صفحہ 470، مطبوعہ کراچی)
اسی بارے میں بحر الرائق میں ہے:
”إذا سقط منها شيء لم يستبن خلقه فما رأت فعلى هذا يكون حيضا“
ترجمہ: جب عورت سے کوئی چیز (ادھورا حمل)ساقط ہوئی اور یہ ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق (جس کے اعضاء ظاہر ہو چکے تھے)نہ تھا، تو جو خون اس نے(دورانِ حمل)دیکھا تھا، وہ حیض ہو گا۔ (بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، صفحہ 332، مطبوعہ کوئٹہ)
مبسوط سرخسی میں ہے
”فإن كانت قد رأت قبل إسقاط السقط دما۔۔۔ إن لم يكن مستبين الخلق كان ذلك حيضا“
ترجمہ: اگر عورت نے(دورانِ حمل) حمل ساقط ہونے سے پہلے خون دیکھا، تو اگر یہ ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق نہ تھا، تو دورانِ حمل آنے والا خون حیض تھا۔ (المبسوط السرخسی، کتاب الحیض، باب النفاس، جلد 3، صفحہ 225 تا 226، مطبوعہ کوئٹہ)
اسقاطِ حمل سے پہلے اور بعد آنے والے خون میں اگر عورت کے عادت کے ایام کی مدت پوری ہوتی ہو، تو اس عادت کے موافق ایام حیض و استحاضہ کا تعین کیا جائے گا، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے
”فإن رأت الدم قبل إسقاط السقط ۔۔۔ وإن لم يكن السقط مستبين الخلق فما رأته قبل السقط حيض إن أمكن أن يجعل حيضا بأن وافق أيام عادتها وكان مرئيا عقيب طهر صحيح۔۔۔ ثم إن كان ما رأت قبل السقط مدة تامة فما رأت بعد السقط استحاضة.وإن لم تكن مدة تامة تكمل مدتها مما رأت بعد السقط ثم هي مستحاضة بعد ذلك“
ترجمہ: پس اگر عورت نےحمل ساقط ہونے سے پہلے (دورانِ حمل) خون دیکھا، تو اگر ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق نہ تھا، تو اس نے حمل ساقط ہونے سے پہلے جو خون دیکھا تھا، اگر اسے حیض بنانا ممکن ہو کہ وہ عادت کے ایام کے موافق ہو اور طہر صحیح کے بعد آیا ہو، تو وہ حیض ہو گا، پھر اگر حمل ساقط ہونے سے پہلے آنے والا خون (اس عورت کی عادتِ حیض کی) مدت مکمل کر لے، تو جو بعد میں خون آیا، وہ استحاضہ ہو گا اور اگر (عادت کی)مدت مکمل نہ ہو، تو حمل ساقط ہونے کے بعد والے خون کو بھی ملا کر مدت مکمل کی جائے گی اور اس مدت کے بعد وہ مستحاضہ ہو گی۔ (المبسوط السرخسی، کتاب الحیض، باب النفاس، جلد 3، صفحہ 225، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : محمد احمد سلیم مدنی
مصد ق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9494
تاریخ اجراء : 08 ربیع الاول 1447ھ/02 ستمبر 2025ء