حاملہ عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ

حاملہ عورت سجدہ کیسے کرے؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ایک ایسی خاتون کہ جو اُمید سے ہے، اُسے سجدہ کرتے ہوئے اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ لگانے میں تکلیف اور آزمائش کا سامنا ہے۔ عام حالت میں تو ممکن تھا، مگر اب حمل کا ساتواں ماہ ہے، جس کے سبب معمول کے مطابق سجدہ کرنا مشکل ہے۔ کیاوہ پیٹ کو رانوں کے ساتھ مس کیے بغیر کچھ اونچی رہ کر، یعنی پیٹ کو کچھ اوپر رکھ کر سجدہ کر سکتی ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگرعورت کو اُمید سے ہونے یا کسی بھی دوسرے عذر کے سبب پیٹ کو رانوں کے ساتھ لگانا دشوار اور تکلیف دَہ ہو، تو پیٹ کو رانوں سے جدا رکھ کر سجدہ کر سکتی ہے۔ اِس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، کیونکہ عورت کے حق میں سمٹ کر رانوں کو پیٹ سے لگاتے ہوئے سجدہ کرنا سجدے کی سنتوں میں سے ہے۔ فقہائے دین نے عورت کی کیفیتِ سجدہ بیان کرتے ہوئے ”ینبغی للمرأۃ“ اور ”السنۃ فی حقھا“ کے جملے استعمال کیے ہیں، جو اِس طریقے کے ”سنتِ سجدہ“ ہونے کی دلیل ہے، لہذا عذر کے سبب اِس انداز کو چھوڑنے کی بھی اجازت ہے، بلکہ جب اس کے بغیر ممکن نہیں تو ایسا کرنا ضروری ہوگا،نیز ہمارا دینِ اسلام مرد وعورت کو اُن کی طاقت وحالت کے مطابق ہی مکلف بناتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾

ترجمہ کنزالعرفان: ’’ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ،پارہ3، آیت286)

دوسرے مقام پر دینِ اسلام کا مزاج بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا:

﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: ’’اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔‘‘ (سورۃ الحج،پارہ17، آیت78)             

اصولی حکم یہی ہے کہ عورت پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے اور یہ سنت ہے، چنانچہ علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں:

’’يسن انخفاض ‌المرأة ولزقها بطنها بفخذيها لأنه عليه السلام مر على امرأتين تصليان فقال:إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى بعض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل‘‘

 ترجمہ: عورت کے لیے نماز میں اپنے جسم کو سمیٹنا اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا لینا مسنون ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو نماز پڑھتی ہوئی عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: جب تم دونوں سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے کو بعض سے ملا لیا کرو (یعنی اپنے آپ کو سمیٹ لیا کرو)، کیونکہ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحة100، مطبوعة المكتبة العصرية)

شمس الدین علامہ ابنِ امیر الحاج حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:879ھ/1474ء) لکھتےہیں:

’’أما المرأة، فينبغي أن تفرش ذراعيها وتنخفض ولا تنتصب كانتصاب الرجل وتلصق بطنها بفخذيها؛ لأن ذلك أستر لها‘‘

ترجمہ:رہی بات عورت کی، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بازوؤں کو زمین پر بچھا لے، اپنے جسم کو پست رکھتے ہوئے سمیٹ لے، مرد کی طرح بلند نہ ہو (یعنی اعضاء کو اٹھا کر نہ رکھے) اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا لے۔ کیونکہ یہ طریقہ اس کے لیے زیادہ پردے والا ہے۔ (حَلْبَۃ المُجَلِّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد02، صفحہ 164،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

رئیس الفقہاء، علامہ وَصِی احمد محدث سُوْرَتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1334ھ/1916ء)نے لکھا:

’’اما المراۃ فینبغی ان تفترش ذراعیھا وتنخفض ولاتنتصب کانتصاب الرجل ویلصق بطنھا بفخذیھا۔۔۔ فکان السنۃ فی حقھا ما کان استر من الھیئۃ‘‘

ترجمہ:عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے بازوؤں کو زمین پربچھا لے، اپنے جسم کو پست رکھے، اور مرد کی طرح (اپنے اعضاء کو) بلند نہ کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا لے۔۔۔پس اس کے حق میں مسنون طریقہ وہی قرار پایا جو ہیئت سب سے زیادہ پردے والی ہو۔ (التعلیق المجلیٰ لما فی منية المصلي، صفحہ311، مطبوعہ ضیاء القرآن، لاھور)

البتہ عذر ہو تو عورت اِس سنت ِ سجدہ (پیٹ رانوں سے ملانے) کو چھوڑ سکتی ہے، چنانچہ اِس مسئلہ کی مثال یہ ہے کہ مرد کے لیے قعدہ میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں کو پھیلا کر اُس پر بیٹھے، مگر عذر یا تکلیف کی صورت میں جس طرح آسانی ہو، اُسی طرح بیٹھنے کی اجازت ہے، چنانچہ ”صحیح البخاری“ میں ہے:

’’عن عبد اللہ بن عبد اللہ أنه كان يرى عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنهما يتربع في الصلاة إذا جلس، ففعلته وأنا يومئذ ‌حديث ‌السن، فنهاني عبد اللہ بن عمر، وقال: إنما سنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى، وتثني اليسرى، فقلت: إنك تفعل ذلك؟ فقال: إن رجلي لا تحملاني‘‘

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے۔ اُنہوں نے حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما کو دیکھا کہ جب وہ نماز میں بیٹھے تو چار زانو بیٹھے۔ میں چونکہ نوعمر تھا، لہذا میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ مجھے عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے منع کر دیا اور فرمایا کہ نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پاؤں کھڑا کرو اور بایاں پاؤں پھیلا دو۔ میں نے عرض کیا:پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھاتے۔ (صحیح البخاری، جلد01، صفحہ 165، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

یونہی اگر کسی شخص کو عذرِ شرعی ہو اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے سے عاجز ہو تو بیٹھنے میں جس ہئیت میں بھی آسانی محسوس کرے، اُسی طرح بیٹھ جائے، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے لکھا:

’’أقول: ينبغي أن يقال إن كان جلوسه كما يجلس للتشهد أيسر عليه من غيره أو مساويا لغيره كان أولى وإلا اختار الأيسر في جميع الحالات‘‘

ترجمہ:میں کہتا ہوں: یوں کہا جانا بہتر ہے کہ اگر مریض کو تشہد والے انداز میں بیٹھنا کسی دوسری ہیئت میں بیٹھنے سے آسان لگے یا دوسری ہیئت کے برابر آزمائش ہو، تو پھر ہیئتِ تشہد میں بیٹھنا ہی اَولیٰ ہے، ورنہ ساری نماز میں جو آسان ترین ہیئت محسوس ہو، اُسے ہی اختیار کر لے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد 4، صفحہ 533، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9395

تاریخ اجراء: 11  محرم الحرام1447ھ/ 07 جولائی 2025ء