استحاضہ کا خون حیض سمجھ کر روزہ توڑنے پر کفارہ ہوگا؟

استحاضہ کا خون حیض سمجھ کر روزہ توڑ دیا تو کیا روزے کا کفارہ لازم ہوگا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

مجھے اپنی ماہواری کی عادت کے مطابق روزے کی حالت میں خون آیا تو میں نے حیض کا خون سمجھ کر دن بارہ بجے روزہ توڑ  دیا، میرے پیٹ میں درد تھا تو ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ پریگنینسی ٹیسٹ کرواؤ، میں نے تقریباً 2 بجے ٹیسٹ کروایا تو پریگنینسی کنفرم ہوئی، تو معلوم ہوا کہ وہ خون حیض کا نہیں تھا، تو اب شرعی رہنمائی فرمائیں کہ میں نے حیض کا خون سمجھ کر روزہ توڑا کیونکہ خون عادت کے مطابق آیا تھا لیکن وہ حیض کا خون نہیں تھا اور مجھے اس وقت پریگنینسی کا علم بھی نہیں تھا تو اس روزے کی قضا کے ساتھ کیا کفارہ بھی لازم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

دوران حمل آنے والا خون استحاضہ یعنی بیماری کا خون شمار ہوتا ہے اور استحاضہ کا خون روزے سے مانع نہیں ہوتا بلکہ اس حالت میں روزہ باقی رہتا ہے،لہذا اس صورت میں آپ کو روزہ توڑنا نہیں چاہیے تھااوراب اس روزے کوتوڑنے کے سبب قضا لازم ہے، مگر اس میں کفارہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب کوئی خاتون رمضان میں دن کے وقت خون دیکھے اور اسے حیض سمجھ کر روزہ توڑ لے اور بعدمیں ظاہر ہو کہ وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ تھا تواس پر اس روزے کا کفارہ واجب نہیں ہوتا؛ کہ یہاں پر شبہ پایا گیا اور شبہ کی بنا پر کفارہ لازم نہیں ہوتا۔

در مختار میں ہے

و ما تراہ حامل استحاضۃ، ملتقطاً

ترجمہ: حاملہ عورت کو آنے والا خون استحاضہ کہلاتا ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، ج 1، ص 285،دار الفکر، بیروت)

بہار شریعت میں ہے "حمل والی کو جو خون آیا اِستحاضہ ہے۔" (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 373، مکتبۃ المدینہ)

استحاضہ کا خون روزے سے مانع نہیں، جوہرہ نیرہ میں ہے

(وحكمه حكم دم  الرعاف لا يمنع الصلاة ولا الصوم ولا الوطء) و إذا لم يمنع الصلاة فلأن لا يمنع الصوم أولى؛ لأن الصلاة أحوج إلى الطهارة منه

ترجمہ: اس (یعنی استحاضہ کے خون) کا حکم بھی وہی ہے، جو نکسیر کے خون کا ہے، یہ نہ نماز سے مانع ہے، نہ روزے سے اور نہ جماع سے، جب یہ خون نماز سے مانع نہیں تو پھر روزے سے تو بدرجہ اولیٰ مانع نہیں ہوگا؛ کیونکہ نماز میں طہارت کی زیادہ حاجت ہے بہ نسبت روزے کے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الطھارۃ، جلد 01، صفحہ 33، المطبعة الخيرية)

صورت مسئولہ میں روزے کی صرف قضا ہی لازم ہے، کفارہ واجب نہیں، چنانچہ "یتیمۃ الدھر علی مذھب الامام الاعظم" کے حوالے سے فتاوی تاتارخانیہ میں ہے

الیتیمۃ: سئل الفضل الکرمانی عن امراۃ رات الدم فی ایام رمضان فظنت انھا حیض و افطرت فلم یکن حیضاً ھل تلزم الکفارۃ، و ھل تغیرت الحال بین ما اذا کان من ایام حیضھا و بین ما اذا لم یکن؟ فقال: لا

 ترجمہ: الیتیمہ میں ہےکہ حضرت امام فضل کرمانی رحمۃاللہ علیہ سے اس عورت کے متعلق سوال کیا گیا، جس نے رمضان کے مہینے میں دن کے وقت خون دیکھا تو اسے حیض سمجھتے ہوئے روزہ توڑ دیا جبکہ وہ حیض نہیں تھا تو کیا اس عورت پر کفارہ لازم ہوگا؟ اور کیا حکم میں کوئی تبدیلی ہوگی جب ایسا، حیض آنے کے دنوں میں ہوا ہو یاوہ حیض آنے کے دن نہ ہوں؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں (یعنی اس عورت پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے اور دونوں صورتوں میں حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔) (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصوم، جلد 03، صفحہ 392، مطبوعہ: کوئٹہ)

النتف فی الفتاوی میں شیخ الاسلام، قاضی القضاۃ، علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات / 461ھ) تحریرفرماتے ہیں:

‌‌مطلب اكل الشبهة۔۔۔ و الرابع امرأة رأت دما فظنت انه دم حيض فافطرت ثم انقطع دون ثلاثة أيام۔۔۔فان صوم هؤلاء يفسد و عليهم القضاء دون الكفارة

ترجمہ: (شبہ کی بناء پر کھانے کے متعلق بحث) چوتھامسئلہ یہ ہے کہ: عورت نے خون دیکھا تو یہ گمان کیا کہ یہ حیض کا خون ہے، اس لیے روزہ توڑدیا، پھر وہ خون تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا۔۔۔ تو ان سب کا روزہ فاسد ہو جائے گا اور ان پر قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔ (النتف فی الفتاوی، جلد 01، صفحہ 150، مؤسسة الرسالة، بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4392

تاریخ اجراء: 09 جمادی الاولٰی 1447ھ / 01 نومبر 2025ء