
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12642
تاریخ اجراء:06جمادی الاخری1444ھ/30دسمبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی عورت سر سے لٹکتے بالوں کی چوتھائی مقدار پر مسح کرلے، تو کیا اس سے مسح کا فرض ادا ہوجائے گا؟ اور لٹکتے بالوں کا جو جوڑا بنا لیتے ہیں سر کے پچھلے حصے پر، کیا اس پر مسح کرنا کافی ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں صرف سر سے لٹکتے بالوں کی چوتھائی یا صرف لٹکتے بالوں کے بنائے گئے جوڑے کی جگہ پر مسح کیا اور سر پر موجود فطرتی بالوں پر مسح نہ کیا تو وضو کا یہ فرض ادا نہیں ہوگا۔
فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق سر سے جو بال لٹک رہے ہوتے ہیں فقط انہی بالوں پر مسح کرلینا کافی نہیں، اس سے مسح کا فرض ادا نہیں ہوتا بلکہ جو بال سر پر ہوتے ہیں، ان بالوں پر مسح کیا جائے گا ۔ لٹکتے بالوں کو سر پر جما کر اگر جوڑا باندھ لیا جائے تو صرف ان بالوں کے جوڑے پر مسح کرنا، کافی نہیں ہوگا ۔ہاں جوڑا اگر سر کے پچھلے حصے پر ہو اور کوئی عورت چوتھائی یا اس سے زائد سر پر فطرۃً جو بال جمے ہوتے ہیں ان بالوں پر مسح کرلے تو ادائیگی فرض کے لیے اتنا کافی ہے ۔ ایسی صورت میں جُوڑے کی وجہ سے مسح کرنے کے فرض کی ادائیگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر کسی عورت نے سر کے ابتدائی حصے پر لٹکتے بالوں کا جوڑا بنایا ہوا ہو تو یہاں اُسے اس بات کا یقین کرلینا ضروری ہے کہ جُوڑے کے حصے کے علاوہ سر پر فطرتاً جمے ہوئے بالوں کے کم از کم چوتھائی حصے پر مسح ہو گیا یا نہیں؟ تاکہ فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی واقع نہ ہو۔
تنبیہ: یہ شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ پورے سر کا ایک بار مسح کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور بلا عذرِ شرعی عادتاً اس کو ترک کرنا گناہ ہے۔
فقط سر سے نیچے لٹکتے بالوں پر مسح کرلینا کافی نہیں۔ چنانچہ مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، فتاوٰی عالمگیری، فتح القدیر وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظؐم للاول“ محل المسح ما فوق الأذنين فيصح مسح ربعه لا ما نزل عنهما فلا يصح مسح أعلى الذوائب المشدودة على الرأس “یعنی مسح کی جگہ دونوں کانوں سے اوپری حصہ ہے لھذا سر کے چوتھائی حصے کا ہی مسح درست ہوگا نہ کہ ان بالوں کا جو دونوں کانوں سے نیچے لٹکتے ہوں، لہذا سر پر بالوں کو لپیٹ کر ان کا جوڑا باندھا ہو تو فقط انہی بالوں پر مسح کرلینا کافی نہیں ہوگا۔
(المشدودة على الرأس) کے تحت حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:”أي التي أديرت ملفوفة على الرأس بحيث لو أرخاها لكانت مسترسلة “یعنی یہاں وہ بال مراد ہیں جنہیں لپیٹ کر سر کے اوپر جُوڑے کی شکل میں جما لیا ہو اس طور پر کہ اگر ان بالوں کو چھوڑا جائے تو وہ لٹکتے ہوں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 96-95، مکتبہ غوثیہ، کراچی)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(و مسح ربع الراس مرۃ) فوق الاذنین “یعنی کانوں سے اوپر سر کے بالوں کی چوتھائی مقدار پر ایک مرتبہ مسح کرنا وضو میں فرض ہے۔
(فوق الاذنین) کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:” فلو مسح علی طرف ذؤابۃ شدت علی راسہ لم یجز۔ “یعنی اگر کسی شخص نے سر پر بالوں کو لپیٹ کر ان کا جوڑا باندھا ہو تو اس جوڑے کے کسی ایک کنارے پر مسح کرلینا کافی نہیں ہوگا۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 223-222، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” مسح کی نم سر کی کھال یا خاص سر پر جو بال ہیں ( نہ وہ کہ سرسے نیچے لٹکے ہیں) اُن پر پہنچنا فرض ہے۔ اس کے تحت فوائد جلیلہ میں ہے:"سر کے نیچے جو بال لٹکتے ہیں ان کا مسح کا فی نہیں"۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 01(الف)، ص 285، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے:” سر سے جو بال لٹک رہے ہوں ان پر مسح کرنے سے مسح نہ ہوگا۔ “(بہارِ شریعت، ج 01، ص 291، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم