
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی عورت کو عام دنوں میں سفید مادہ، یا پانی جیسا مادہ خارج ہو توکیا یہ پاک ہے یا ناپاک؟ اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ کپڑے پاک رہتے ہیں یا نہیں اور کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہ رطوبت لیکوریا کہلاتی ہے، اس حالت میں عورت ضرور نماز پڑھے گی۔ البتہ اس رطوبت کے پاک یا ناپاک ہونے اور اس سے وضو کے ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے میں تفصیل یہ ہے:
(1) اگر یہ نکلنے والی رطوبت بالکل سفید یا پانی کی طرح شفاف ہو،اس میں خون کی سرخی یا پیلا پن وغیرہ کچھ نہ ہو،تو یہ رطوبت پاک ہے،اِس سے جسم اور کپڑے وغیرہ بھی ناپاک نہیں ہوں گے اور وضو بھی نہیں ٹوٹے گا،چاہےیہ رطوبت گاڑھی ہو یا پتلی ہو، اس میں بُو ہو یا نہ ہو، کیونکہ یہ محض شرمگاہ کی ایک رطوبت ہے اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جسم کی دیگر رطوبتوں کی طرح ،شرمگاہ کی رطوبت بھی پاک ہے۔
(2) اگر اس رطوبت میں سُرخی ہو، یا وہ پیلے رنگ کی ہو تو اب اس کے بہنے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور یہ ناپاک ہوگی، جسم اور کپڑوں پر لگ کے اُسے بھی ناپاک کردے گی، کیونکہ رطوبت کا سرخ یا پیلا ہونا،اُس میں خون کے شامل ہونے کا شبہ ڈالتا ہے، لہذا اُسے احتیاطاً ناپاک شمار کیا جائے گا اور اس سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہوگا۔ یونہی اگر جسم کے اندر کوئی مرض ہوجس کی وجہ سے یہ رطوبت نکل رہی ہو یا یہ رطوبت درد کے ساتھ نکل رہی ہوکہ رطوبت کا درد کے ساتھ نکلنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی زخم وغیرہ ہے جس کی وجہ سے یہ رطوبت نکل رہی ہے، بہرحال ان صورتوں میں بھی یہ رطوبت ناپاک ہوگی اور اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا کیونکہ جو چیز کسی مرض یا درد کی وجہ سے نکلنے، اس میں خون وغیرہ نجاست کے ملنے کا گمان ہوتا ہے۔ لہذا اس بناء پر اسے نجس مانیں گے اور اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
شرمگاہ کی وہ رطوبت جس میں خون کی آمیزش نہ ہو، وہ پاک ہے اور اس سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا، جیسا کہ در مختار میں ہے:
رطوبة الفرج، أما عنده فهي طاهرة كسائر رطوبات البدن
ترجمہ: شرمگاہ کی رطوبت، تو وہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پاک ہے جس طرح بدن کی دیگر رطوبتیں پاک ہیں۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:
و اما رطوبۃ الفرج الخارج فطاھرۃ اتفاقا
ترجمہ: بہرحال، فرج خارج کی رطوبت تو وہ بالاتفاق پاک ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 1، کتاب الطھارۃ، باب الانجاس، صفحہ 566، دار المعرفہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’عورت کے آگے سے جو خالص رطوبت بے آمیزشِ خون نکلتی ہے ناقضِ وُضو نہیں، اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 304، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وہ رطوبت جس میں خون کی آمیزش ہو،نجس ہے اور اس کے نکلنےسے وضو ٹوٹ جائے گا، جیساکہ رد المحتار میں ہے:
الدم و القيح و الصديد و ماء الجرح و النفطة و ماء البثرة و الثدي و العين والأذن لعلة سواء على الأصح... و ظاهره أن المدار على الخروج لعلة و إن لم يكن معه وجع
ترجمہ: خون، پیپ، صدید (خون ملا پیپ) زخم اور آبلہ کا پانی، پھنسی، پستان، آنکھ، کان سے بیماری کی وجہ سے نکلنے والا پانی اصح قول کے مطابق ایک حکم میں ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ اس کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ اس کا نکلنا بیماری کی وجہ سے ہو اگرچہ درد نہ ہو۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 1، کتاب الطھارۃ، صفحہ 306، دار المعرفہ، بیروت)
جو رطوبت بیماری کی وجہ سے نکلے وہ نجس ہے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، جیسا کہ غنیۃ المتملی میں ہے:
کل ما یخرج من علۃ من أی موضع کان کالاذن والثدی والسرۃ و نحوھا فانہ ناقض علی الاصح لانہ صدید
ترجمہ: ہر وہ رطوبت جو کسی بھی جگہ سے بیماری کی وجہ سے نکلے، جیسے کان، پستان، ناف وغیرہ سے، تو اصح قول کے مطابق وہ رطوبت وضو کو توڑدے گی کیونکہ یہ صدید(یعنی خون ملا پیپ)ہے۔ (غنیۃالمتملی، نواقض الوضو، صفحہ 116، مطبوعہ کوئٹہ)
مرض اور درد کی وجہ سے نکلنے والی چیز میں چونکہ نجاست کے ملنے کا گمان ہوتاہے، لہذا نجس اور ناقض و ضو ہے، جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’حقیقت امر یہ ہے کہ درد و مرض سے جو کچھ بہے اسے ناقض ماننا اس بناء پر ہے کہ اس میں آمیزشِ خون وغیرہ نجاسات کا ظن (گمان) ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ اول، صفحہ 356، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-836
تاریخ اجراء: 30 محرم الحرام 1447ھ / 26 جولائی 2025ء