
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3565
تاریخ اجراء:11شعبان المعظم 1446ھ/10فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر عورت کے سر کے بال کھلے ہوں لیکن مکمل پردے میں ہوں ،چھپے ہوئے ہوں تو کیا نماز ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر عورت کے بال کھلے ہیں،لیکن اس نے مکمل پردے کا انتظام کیا ہے کہ بال مکمل چھپے ہوئے ہیں اور ان کی رنگت بھی ظاہر نہیں ہو رہی تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ کیونکہ محض بالوں کا کھلا ہونا نماز کےمنافی نہیں ہے۔بلکہ بالوں کے بارے حکم یہ ہے کہ وہ مکمل چھپے ہوں۔ چنانچہ در مختار میں ہے”(وللحرة) ولو خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح (خلا الوجه والكفين) فظهر الكف عورة على المذهب (والقدمين)“ ترجمہ:آزاد عورت اور خنثی کا پورا بدن ستر عورت ہے حتی کہ اصح قول کے مطابق سر کے لٹکتے ہوئے بال بھی ستر عورت میں شامل ہیں،سوائے چہرہ ،ہتھیلیوں اور قدموں کے کہ یہ ستر عورت میں شامل نہیں۔ (در مختار مع رد المحتار،ج 1،ص 405،دار الفکر،بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے” والثوب الرقيق الذي يصف ما تحته لا تجوز الصلاة فيه. كذا في التبيين“ ترجمہ : اتنا پتلا کپڑا کہ جس کے نیچے سے جسم ظاہر ہو اس میں نماز جائز نہیں،یونہی تبیین میں ہے۔(فتاوی ھندیۃ،ج 1،ص 58،دار الفکر،بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے :’’ آزاد عورتوں اورخنثیٰ مشکل کے ليے سارا بدن عورت ہے، سوا مونھ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔‘‘ (بہار شریعت ،حصہ 03،ص 481،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
مزید اسی میں ہے’’اتنا باریک دوپٹا، جس سے بال کی سیاہی چمکے، عورت نے اوڑھ کر نماز پڑھی، نہ ہوگی، جب تک اس پر کوئی ایسی چیز نہ اوڑھے، جس سے بال وغیرہ کا رنگ چھپ جائے‘‘۔(بہار شریعت ،حصہ 03،ص 481،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم